مرکزی بینک کے اقدامات کے باوجود اوپن مارکیٹ میں ڈالر 5 روپے مہنگا

اپ ڈیٹ 05 جون 2023
ظفر پراچا نے بتایا کہ جن لوگوں نے 310 روپے پر ڈالر خریدا تھا وہ اسے فروخت نہیں کررہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
ظفر پراچا نے بتایا کہ جن لوگوں نے 310 روپے پر ڈالر خریدا تھا وہ اسے فروخت نہیں کررہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

اوپن مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر 5 روپے اضافے کے بعد 305 کی سطح پر پہنچ گئی۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق آج اوپن مارکیٹ میں پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر 5 روپے اضافے کے بعد 305 روپے کا ہوگیا ہے، جبکہ انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 32 پیسے اضافے کے بعد 286 روپے کی سطح پر پہنچ گیا ہے جو گزشتہ روز 285 روپے 68 پیسے پر بند ہوا تھا۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچا نے بتایا کہ جن لوگوں نے 310 روپے پر ڈالر خریدا تھا وہ اسے فروخت نہیں کر رہے بلکہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی ادائیگی کے نظام میں کارڈ کی بنیاد پر سرحد پار لین دین کے لیے بینکوں کو انٹربینک مارکیٹ سے امریکی ڈالر حاصل کرنے کی اجازت کی حکمت عملی کی وجہ سے 10 سے 20 روپے تک کم ہونے چاہیے تھے۔

مرکزی بینک کے 31 مئی کو اٹھائے گئے اقدام کی وجہ سے اگلے روز اوپن مارکیٹ مٰں ڈالر 15 روپے سستا ہوا تھا، تجزیہ کاروں کو توقع تھی کہ اوپن اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کا فرق کم ہوگا، جو بڑھ کر تقریباً 30 روپے تک پہنچ گیا تھا۔

ظفر پراچا نے نوٹ کیا کہ بجائے فرق کم ہونے کے، آج مارکیٹ مخالف سمت میں گئی اور اوپن مارکیٹ میں مقامی کرنسی کی قدر 5 روپے گر گئی۔

انہوں نے کہا کہ اگر (مرکزی بینک کے) سرکلر پر صحیح طریقے سے عمل کیا جاتا تو (انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ) فرق کم ہو سکتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے متعلق حکومت کی پالیسیوں میں تضاد ہے اور کوئی بھی پالیسی مسئلہ حل نہیں کرسکتی۔

ظفر پراچا نے بتایا کہ اگر حکومتی پالیسیاں ایک پیج پر نہیں ہوں گی تو مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ناممکن ہوگا، ہمیں سری لنکا کی مثال سے سبق سیکھنا چاہیے، جس نے مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے صرف گرے مارکیٹ میں قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا، ہم ایسا گزشتہ 20 برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔

ٹریس مارک کی سربراہ کومل منصور نے اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ تجارتی خسارہ 1.8 ارب ڈالر کی توقع کے مقابلے میں 2 ارب 10 کروڑ ڈالر کا ہوگیا ہے حالانکہ یہ معمولی زیادہ ہے لیکن اس کی وجہ سے ممکنہ طور پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہو جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اوپن مارکیٹ میں پاکستانی روپیہ بدستور دباؤ کا شکار ہے کیونکہ کافی درآمدات حوالہ / ہنڈی کے ذریعے کی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے رسد کے مقابلے میں طلب زیادہ ہے۔

خیال رہے کہ چند روز قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی ادائیگی کے نظام میں کارڈ کی بنیاد پر سرحد پار لین دین کے لیے بینکوں کو انٹربینک مارکیٹ سے امریکی ڈالر حاصل کرنے کی اجازت دینے کے بعد اوپن مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدر 11 روپے 50 پیسے اضافے کے بعد 299 روپے 50 پیسے کی سطح پر آگئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں