مالی سال 2023 کے دوران ترسیلات زر، برآمدات میں کمی کے سبب 8.3 ارب ڈالر کا نقصان

اپ ڈیٹ 16 جولائ 2023
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض سے شرح تبادلہ سمیت معیشت پر اب کوئی مثبت اثر نہیں پڑے گا — فائل فوٹو: رائٹرز
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض سے شرح تبادلہ سمیت معیشت پر اب کوئی مثبت اثر نہیں پڑے گا — فائل فوٹو: رائٹرز

گزشتہ مالی سال کے دوران ترسیلات زر اور برآمدات میں نمایاں کمی کی وجہ سے پاکستان کو 8 ارب 30 کروڑ ڈالر کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا جبکہ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو مطمئن کرنے میں مصروف رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان 2 اہم شعبوں کی جانب توجہ نہ دینے کی وجہ سے پاکستان نے آئی ایم ایف اور دیگر ذرائع سے آنے والی رقوم سے جتنا کچھ حاصل کیا اس سے کہیں زیادہ کھو دیا۔

پاکستان نے مالی سال 2023 میں بڑے پیمانے پر ٹیکس کے بوجھ، بلند ترین شرح سود، ریکارڈ مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کے بدلے مالی سال 2024 کے لیے 9 ماہ کا 3 ارب ڈالر کا قرض پروگرام حاصل کیا ہے۔

ترسیلات زر مالی سال 2022 میں 31 ارب 278 کروڑ ڈالر کے برعکس 13.6 فیصد کم ہو کر 27 ارب 24 کروڑ ڈالر ڈالر رہ گئیں جو کہ 4 ارب 252 کروڑ ڈالر کا نقصان ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے رقوم کی آمد مالی سال 2021 میں ملک کو موصول ہونے والے 29 ارب 44 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ڈالر سے بھی نیچے آگئی جس میں مالی سال 2020 میں 23 ارب 13 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 6 ارب 31 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔

10 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کے مشرق وسطیٰ میں ملازمتوں کے لیے ملک چھوڑنے کے باوجود مالی سال 2023 کے دوران بیرون ملک سے رقوم کی آمد کی رفتار مایوس کن رہی۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی ورکرز کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے رقوم کی آمد بہت زیادہ ہو سکتی تھی لیکن اس میں کمی بنیادی طور پر سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ سے ہوئی جس کا پورے مالی سال غلبہ رہا اور اس نے سمندر پار پاکستانیوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے بےیقینی پیدا کر دی۔

کرنسی ڈیلر اور انٹربینک مارکیٹ کے ماہر عاطف احمد نے کہا کہ ترسیلات زر میں ماہانہ کمی کے باوجود حکومت، آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کے حصول میں مصروف رہی، اس میں کمی کے رجحان سے نمٹنے کی توجہ کی ضرورت تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ قرض لینا زیادہ اہم تھا۔

اسی دوران برآمدات میں کمی آنا شروع ہوئی اور بالآخر یہ 12.7 فیصد کی کمی کے ساتھ 27 ارب 74 کروڑ ڈالر تک آگئی جو کہ گزشتہ سال 31 ارب 78 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 4 ارب 4 کروڑ ڈالر کا نقصان ظاہر کرتا ہے۔

دونوں شعبوں میں کمی کے نتیجے میں 8 ارب 29 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا مجموعی نقصان ہوا، یہ رقم مالی سال 2023 میں ریکارڈ کی گئی برآمدات کے تقریباً 30 فیصد کے برابر ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں ماہ آئی ایم ایف، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 4 ارب 20 کروڑ ڈالر رقم کی مجموعی آمد کی اطلاع دی ہے، پاکستان کو امید ہے کہ آئی ایم ایف کی مدد کے بعد آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مزید ادھار ڈالر ملیں گے لیکن 8 ارب 30 کروڑ ڈالر کا نقصان اب بھی اس سے زیادہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض سے شرح تبادلہ سمیت معیشت پر اب کوئی مثبت اثر نہیں پڑے گا۔

ٹریس مارک کے سی ای او اور مالیاتی ماہر فیصل مامسا نے کہا کہ 4 ارب 20 کروڑ ڈالر کی آمد تازہ ہوا کا جھونکا ہے، آئی ایم ایف کا پروگرام پاکستان کی موجودہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی مرضی کے مطابق بنایا گیا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے سیاسی طور پر مدد فراہم کی گئی، اس سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح امریکا اور خلیجی ریاستیں پاکستان کو جغرافیائی طور پر اہم سمجھتیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملکی ذخائر مین اضافے پر خوشیاں منائی جارہی ہیں لیکن ادائیگیوں کے بیک لاگ (درآمدات، منافع کی واپسی وغیرہ) کا تقریباً 6 ارب ڈالر کا تخمینہ ہے جو روپے کو اس کی موجودہ سطح سے زیادہ مضبوط نہیں ہونے دے گا۔

گزشتہ روز کے آخری سیشن میں انٹربینک مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بڑھی جو آئی ایم ایف کی مدد کے کم ہوتے اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔

فیصل مامسا نے کہا کہ اگر مہنگائی کی شرح بلند رہی تو سود کی شرح جلد نیچے نہیں آسکتی، آئی ایم ایف نے مالی سال 2024 کے دوران مہنگائی کی شرح 25 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں