’مہنگائی، بڑھتی غربت اور غذائی عدم تحفظ پاکستانیوں کیلئے مشکلات پیدا کرتے رہیں گے‘

اپ ڈیٹ 11 اگست 2023
رپورٹ میں کہا گیا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، خاص طور پر اشیائے خورونوش کی مہنگائی، پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے — فوٹو: وائٹ اسٹار
رپورٹ میں کہا گیا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، خاص طور پر اشیائے خورونوش کی مہنگائی، پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے — فوٹو: وائٹ اسٹار

قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ تحلیل ہونے کے ایک روز بعد وزارتِ خزانہ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو پانچ بڑے اور مستقل معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں غربت اور سماجی کمزوریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز وزارت خزانہ نے بلڈنگ ریزیلینس وِد ایکٹو کاؤنٹر سائکلیکل ایکسپینڈیچرز (بی آر اے سی ای) کے ساتھ 1.5 ارب ڈالرز کی لچک پیدا کرنے پر ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کو اپنی پہلی سہ ماہی کارکردگی رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ میں وزارت نے کہا کہ کنٹری سائکلیکل ڈیولپمنٹ ایکسپینڈیچر پروگرام (سی ڈی ای پی) کے حوالے سے مالیاتی پیش رفت تسلی بخش رہی، 31 دسمبر 2022 کو ختم ہونے والی سہ ماہی میں سماجی تحفظ کی مد میں مالی سال کے بجٹ کا 41.5 فیصد استعمال کیا گیا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 2023 میں جولائی تا دسمبر موجودہ اخراجات 30 فیصد بڑھ کر 60 کھرب 61 ارب روپے ہوگئے جو مالی سال 2022 کی اسی مدت میں 46 کھرب 76 ارب روپے تھے۔

اس اضافے کا زیادہ تر حصہ سود کی ادائیگیوں میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے ہوا جس میں شرح سود کی بلند سطح کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر اعلیٰ سروسز کی مد میں 77 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (وفاقی اور صوبائی) میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران محض 4.5 فیصد اضافہ ہوا۔

جولائی تا دسمبر 2023 میں کُل اخراجات 19.8 فیصد بڑھ کر 63 کھرب 82 ارب روپے ہوگئے جو پچھلے سال اسی مدت میں 53 کھرب 28 ارب تھے۔

مالی سال 2023 کی پہلی ششماہی کے دوران کُل آمدنی 18.8 فیصد بڑھ کر 46کھرب 99 ارب روپے تک پہنچ گئی جو گزشتہ سال اسی مدت میں 39 کھرب 56 ارب روپے تھی، اس شرحِ نمو میں سب سے بڑا حصہ نان ٹیکس وصولی میں 26.4 فیصد اضافے سے آیا جبکہ ٹیکس وصولی میں 17 فیصد کا اضافہ بھی ہوا۔

کاروبار اور زراعت کے شعبوں میں معاونت کے لیے حکومت روزگار پیدا کرنے، ملازمتوں میں ہونے والے نقصانات کو بچانے اور غذائی تحفظ یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہی تھی۔

سی ڈی ای پی کے تحت حاصل ہونے والی مجموعی مالی پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ 31 دسمبر 2022 تک بجٹ کا 38.3 فیصد استعمال ہوچکا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ چیلنجز کا یہ مجموعہ قومی معیشت کو بدحال کر رہا ہے، ان چیلنجز میں سرِفہرست ایندھن کی قیمتیں ہیں جو کہ شرحِ تبادلہ میں گراوٹ کی وجہ سے بڑھ جاتی ہیں، مجموعی طور پر ایندھن کی بلند قیمتوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر روس-یوکرین جنگ کے اثرات نمایاں ہیں۔

ایندھن کی قیمتوں کے بعد خوردنی تیل کا جی ڈی پی اور گھریلو استعمال پر سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے لیکن غریبوں کے لیے یہ اثرات تقریباً دوگنے ہیں، چونکہ پاکستان زیادہ تر درآمد شدہ پام آئل پر انحصار کرتا ہے (جو زیادہ تر ملائیشیا اور انڈونیشیا سے منگایا جاتا ہے)، اس لیے قیمتوں میں اضافے کا خطرہ بہت زیادہ رہتا ہے۔

تیسرا مسئلہ بڑھتی ہوئی غربت کا چیلنج ہے جس حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس-یوکرین جنگ کے غربت پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں جس نے پہلے سے شدید تناؤ کا شکار مالیاتی بوجھ کو بڑھا دیا ہے۔

2022 کے سیلاب کے بعد ضروریات کی تشخیص کی رپورٹ نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ قومی سطح پر غربت کی شرح میں 3.7 سے 4 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے اور تباہ کن آفت کی وجہ سے تقریباً 80 سے 90 لاکھ افراد غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوسکتے ہیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی توسیع یا کوئی بھی ممکنہ نقد رقم، بلند مالیاتی خسارے کو مزید بڑھا سکتی ہے۔

ایک اور اہم چیلنج ملکی تاریخ میں بلند ترین افراط زر کی شرح ہے، رپورٹ میں کہا گیا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، خاص طور پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور ملکی کرنسی کی مسلسل گراوٹ گھریلو استعمال پر منفی اثرات مرتب کرے گی جس سے خاص طور پر دیہی علاقوں میں غربت میں اضافہ ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں