سارہ شریف قتل کیس: بچی کے والد سمیت 3 مطلوب ملزمان برطانیہ پہنچتے ہی گرفتار

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2023
سارہ شریف 10 اگست کو برطانیہ میں مردہ حالت میں پائی گئی تھیں—فوٹو: ہینڈآؤٹ
سارہ شریف 10 اگست کو برطانیہ میں مردہ حالت میں پائی گئی تھیں—فوٹو: ہینڈآؤٹ

پاکستانی نژاد برطانوی 10 سالہ سارہ شریف کے قتل کے الزام کا سامنا کرنے والے والد، ان کی اہلیہ اور بھائی کو برطانیہ پہنچتے ہی حکام نے گرفتار کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ تینوں بدھ کو پاکستان سے روانہ ہوئے تھے اور اسی رات گیٹ وک ایئرپورٹ پر اترے تھے۔

سرے پولیس نے بدھ کی رات جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ دو مردوں اور ایک خاتون کو دبئی سے آنے والی پرواز سے اترنے کے بعد قتل کے شبہ میں گرفتار کیا گیا۔

پولیس حکام نے مشتبہ افراد کے نام نہیں بتائے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ان تینوں شہریوں کا حوالہ دے رہے ہیں جو پاکستان سے روانہ ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پولیس نے بتایا تھا کہ پاکستانی نژاد برطانوی 10 سالہ سارہ کے قتل کے الزام کا سامنا کرنے والے والد، ان کی اہلیہ اور بھائی برطانیہ روانہ ہوگئے ہیں جو کئی دنوں سے چھپے ہوئے تھے۔

راولپنڈی کے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) سید خرم علی نے ڈان ڈاٹ کام کو مذکورہ پیش رفت کی تصدیق کی تھی۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پولیس کے ترجمان مدثر خان نے بتایا تھا کہ ہم تصدیق کرتے ہیں کیس کے تین مشتبہ افراد پرواز میں سوار ہوگئے ہیں اور برطانیہ کے لیے راستے میں ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ رضاکارانہ طور پر چلے گئے ہیں اور اس حوالے سے حکام کو آگاہ کیا تھا۔

ملزم عرفان شریف کے والد محمد شریف کے وکیل راجا حق نواز نے بھی اے ایف پی کو بتایا تھا کہ میں تصدیق کر رہا ہوں کہ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا لیکن وہ رضاکارانہ طور پر چلے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے جانے والی پرواز میں سوار ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ برطانوی پولیس نے کہا تھا کہ 10 سالہ سارہ شریف جنوبی برطانیہ کے قصبے ووکنگ میں 10 اگست کو گھر میں مردہ حالت میں پائی گئی تھیں اور پوسٹ مارٹم ٹیسٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ انہیں کئی زخم آئے تھے اور شدید زخم طویل عرصے سے موجود تھے۔

برطانیہ کی پولیس نے اس سے قبل کہا تھا کہ سارہ شریف کے والد 41 سالہ عرفان شریف، ان کی اہلیہ 29 سالہ بنیش بتول اور ان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک اپنے بچوں کے ساتھ سارہ کی لاش برآمد ہونے سے قبل پاکستان فرار ہوگئے ہیں اور ان کے بچوں کی عمریں ایک سال سے 13 سال کے درمیان ہیں۔

پولیس کا ماننا ہے کہ سارہ شریف کے انتقال کے ایک روز بعد تینوں افراد اپنے 5 بچوں کے ساتھ برطانیہ سے پاکستان روانہ ہوگئے اور تینوں مشتبہ افراد سارہ کی لاش برآمد ہونے سے ایک روز قبل 9 اگست کو ملک چھوڑ کر گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان جانے کے لیے ایک طرف کا ٹکٹ خریدنے کے لیے 5 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے۔

گزشتہ روز مطلوب جوڑے کے 5 پاکستانی نژاد برطانوی بچوں کو ریاستی تحفظ میں لیا گیا تھا اور پولیس کا کہنا تھا کہ بچے جہلم میں عرفان شریف کے والد کے گھر میں موجود تھے اور پولیس کو ان کے وہاں چھپے ہونے کی معلومات ملی تھیں۔

اس سے قبل جوڑے نے گزشتہ ہفتے ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ وہ برطانوی حکام کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اے ایف پی کو بتول کے رشتہ داروں کی جانب سے موصول ہونے والی ویڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ سارہ کی موت ایک حادثہ تھا، جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے پاکستان میں ہمارا خاندان بری طرح متاثر ہوا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ میری بڑی تشویش یہ ہے کہ پاکستانی پولیس تشدد کرے گی یا ہمیں مار دے گی، اسی لیے ہم چھپ گئے ہیں۔

پاکستان میں موجود عرفان کے والد اور بھائی نے دعویٰ کیا تھا کہ سارہ کا انتقال ایک حادثہ تھا۔

پولیس نے عرفان شریف کے 10 سے 15 رشتہ داروں سے بھی پوچھ گچھ کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ رشتہ داروں کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا تھا اور مفرور جوڑے کے ٹھکانے کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تھی، انہیں گرفتار نہیں کیا گیا تھا اور پوچھ گچھ کے بعد جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں