پورا ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ ہر طرف مہنگائی کا رونا ہے اور ایسے میں اگر آپ کو کوئی یہ کہے کہ اسلام آباد میں سرکاری اسکول بس سروس بند ہونا شروع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے قریباً 70 ہزار طلبہ اسکول جانے سے قاصر ہوں گے تو آپ کے ذہن میں پہلا خیال یہی آئے گا کہ خزانے میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ہماری آئندہ نسل کا مستقبل تک داؤ پر لگ گیا ہے۔ لیکن آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ بس سروس کی معطلی کی وجہ پیسوں کی کمی نہیں ہے۔

اسلام آباد ملک کا ایک ایسا منفرد شہر ہے جہاں سرکاری اسکولوں میں پہلی جماعت سے دسویں تک نہ صرف تعلیم مفت ہے بلکہ بچوں کو اسکول لانے اور واپس لے جانے کے لیے مفت بسیں بھی چلائی جاتی ہیں۔

یہ بسیں اسلام آباد کی ضرورت بھی ہیں۔ قریباً ایک ہزار 165 مربع کلومیٹر پر محیط دارالحکومت 27 شہری اور 23 دیہی یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ جب اسلام آباد بنا تو شہر چند رہائشی سیکٹرز پر مشتمل تھا۔ بچوں کی تعلیم کے لیے ہر سیکٹر میں سرکاری اسکول بھی بنائے گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی بڑھی تو شہریوں نے سستی رہائش کی تلاش میں نواحی علاقوں کا رخ کرنا شروع کردیا لیکن ان علاقوں میں نئے اسکول نہ بنائے جاسکے۔

2014ء میں جب آئینی ترمیم کے بعد 5 سے 16 سال تک کے بچوں کو مفت تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ٹھہری تو حکومت کو فکر لاحق ہوئی۔ کچھ غیر ملکی اداروں کا دباؤ تھا اور کچھ سیاسی مصلحت۔ نئے اسکول بنانے کے لیے خطیر رقم چاہیے تھی لیکن حکومت نے اس کا آسان حل یہ نکالا کہ پہلے سے موجود اسکولوں کو توسیع دے کر ان میں شام کی کلاسز شروع کردیں اور دور دراز سے بچوں کو اسکول لانے اور لے جانے کے لیے مفت بسیں چلادیں۔

حکومت نے پرانے اسکولوں میں توسیع کی اور مفت بس سروس شروع کردی— فائل فوٹو
حکومت نے پرانے اسکولوں میں توسیع کی اور مفت بس سروس شروع کردی— فائل فوٹو

ان بسوں کو چلانے کے لیے حکومت نے ہر چار ماہ بعد کی قسط باندھ دی۔ رقم کی ریلیز میں دیر سویر ہونا شروع ہوئی تو فیڈرل بورڈ اور اسکول انتظامیہ نے پیسوں کی وقتی قلت کا حل یہ نکالا کہ پٹرول پمپ مالکان سے دو ماہ تک کا ادھار طے کرلیا۔ ہوسکتا ہے کوئی بے ضابطگی بھی ہوتی ہو لیکن گزشتہ قریباً 9 سال سے یہ مفت بس سروس بلا ناغہ ہزاروں بچوں کو گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر پہنچا رہی ہے۔

اس وقت کوئی 2 لاکھ سے زائد طلبہ سرکاری اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں جن میں سے 70 ہزار سے زائد طلبہ اس مفت بس سروس کا استعمال کر رہے ہیں۔ بسوں کا مسئلہ اس وقت بنا جب حکومت نے پابند کیا کہ ایندھن صرف سرکاری پمپوں یعنی پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے فلیٹ کارڈ کے ذریعے سے ہی ڈلوایا جائے۔ یہ بہت ہی اچھا اقدام ہوتا لیکن پی ایس او کی اپنی نرالی ہی شرائط تھیں۔ پی ایس او کی پہلی شرط یہ تھی کہ رقم ایڈاونس میں ادا کی جائے اور دوسری یہ کہ 75 فیصد رقم کے عوض ایندھن سپلائی ہونے کے بعد سپلائی منقطع کردی جائے گی جب تک کہ دوبارہ رقم جمع نہیں کروائی جاتی۔ یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ جب اسکول بھی سرکاری ہیں اور پی ایس او بھی سرکاری ادارہ ہے تو وہ کس لیے ایڈاونس رقم مانگ رہا ہے اور ادائیگی کے عوض پورا ایندھن کیوں نہیں دیتا۔

بجٹ کے بعد پیٹرول کی قیمت بے تحاشا بڑھنے اور پی ایس او کی شرائط کا نتیجہ یہ ہوا کہ بسیں کھڑی ہونا شروع ہو گئیں۔ اب نئی گرانٹ کی منظوری کے لیے وقت چاہیے لیکن اے جی پی آر پرائیوٹ پمپ سے تیل ڈلوانے کی اجازت نہیں دے رہا۔

اسلام آباد کا جی 6 کالج ایک ایسا ہی ادارہ ہے جس کی بس سروس معطل ہوگئی ہے۔ اسلام آباد کے اس سب سے معتبر مانے جانے والے کالج میں پلے گروپ سے لے کر پوسٹ گریجویٹ تک ہزاروں طلبہ دن اور شام کی شفٹ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اسکول کی 8 بسیں دن کی شفٹ پر مامور ہیں جبکہ شام کو 6 بسیں بچوں کو اسکول سے گھر اور گھر سے اسکول چھوڑتی ہیں۔ یہ بسیں روزانہ 30 سے 40 کلومیٹر دور سے بھی بچوں کو اسکول لاتی اور لے جاتی ہیں۔

یہ بسیں روزانہ کئی کلومیٹر دور سے بچوں کو لاتی ہیں— تصویر: وائٹ اسٹار
یہ بسیں روزانہ کئی کلومیٹر دور سے بچوں کو لاتی ہیں— تصویر: وائٹ اسٹار

گزشتہ ہفتے بس سروس معطل ہوئی تو والدین پریشان ہوگئے۔ اسکول کی حاضری آدھی ہوگئی کیونکہ ایک بس میں قریباً ڈیڑھ سو بچے اسکول آتے ہیں۔ والدین کے واٹس ایپ گروپ پیغامات سے بھرگئے، کوئی فریاد کررہا تھا اور کوئی اسکول انتظامیہ کو کوس رہا تھا۔ محمد شریف ان سفید پوشوں میں سے ہیں جن کے 2 بچے بس نہ ہونے کی وجہ سے اسکول نہیں جا پارہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مہنگائی میں مہینے بھرکا راشن ادھار لے کر پورا کرتے ہیں۔ ایسے میں پرائیوٹ ویگن کے اضافی 5 ہزار روپے فی بچہ کیسے ادا کریں‘؟

انہوں نے اپنی تکلیف بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’میری تنخواہ 50 ہزار روپے ہے۔ 20 ہزار روپے مکان کا کرایہ کا نکل جاتا ہے۔ گیس بجلی کے بل ادا کرکے بمشکل 20 ہزار ہی بچتے ہیں جس میں 3200 روپے کا بیس کلو آٹا آجاتا ہے، اس کے علاوہ ضروری اجناس اور دیگر گھریلو اشیا کے اخراجات الگ کریں تو پھر 10 ہزار روپے ہی بچتے ہیں۔ اس میں روزانہ کی سبزی بھی نہیں آتی۔۔۔ فروٹ، گوشت، دودھ تو ناممکنات میں سے ہوگیا ہے۔ دفتر آنے جانے کا خرچہ عیلحدہ ہے۔ ہر ماہ 10، 20 ہزار روپے ادھار لے کر گزارہ کررہا ہوں۔ پرائیوٹ ویگن کا خرچہ کیسے اٹھاؤں‘؟

واضح رہے کہ اسلام آباد میں 50 ہزار روپے آمدن معقول تصور کی جاتی ہے اور ایک بڑی آبادی کی آمدن اسی کے آس پاس ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں اس وقت 2 کروڑ 28 لاکھ سے زیادہ بچے جنہیں پرائمری اسکول میں ہونا چاہیے وہ اسکولوں سے باہر ہیں۔ یونیسف کے مطابق 5 سے 16 برس کے یہ بچے اپنی عمر کی کُل آبادی کا 44 فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ کا رکن ہے اور شہریوں کو مفت تعلیم کے حوالے سے کئی چارٹرز پر دستخط کرچکا ہے ۔ پاکستان کے آئین کی شق 25 اے کے مطابق پانچ سے سولہ سال کے ہر بچے کو مفت تعلیم دینا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہمارے فیصلے تعلیم کے حصول کو مشکل تو نہیں بنا رہے ہیں۔ اب فیسوں کی ادائیگی کو ہی لے لیں حکومت کی تلقین ہے کہ گیارہویں اور اس سے بڑی جماعتوں کے طلبہ اپنی فیسیں نیشنل بینک کے ذریعے جمع کروائیں۔ نیشنل بینک ہر بچے سے فیس وصول کرنے کے 20 روپے اضافی لیتا ہے اور سارا دن بچوں کو لائنوں میں علیحدہ کھڑا رکھتا ہے۔ اسکول والے کہتے ہیں کہ پرائیوٹ بینک نہ صرف اسکولوں میں طلبہ کی فیس وصولی کے لیے کاؤنٹر کھولنے پر آمادہ ہیں بلکہ وہ کوئی اضافی فیس کا مطالبہ بھی نہیں کرتے اور فیس کی رقم پر حکومت کو سود ادا کرنے پر بھی تیار ہیں۔

ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہمارے فیصلے تعلیم کے حصول کو مشکل تو نہیں بنا رہے ہیں— تصویر: ایف ڈی ای
ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہمارے فیصلے تعلیم کے حصول کو مشکل تو نہیں بنا رہے ہیں— تصویر: ایف ڈی ای

اسی طرح حکومت کی طرف سے پی ٹی سی ایل کے علاوہ فون یا انٹرنیٹ سہولیات کسی دوسرے ادارے سے لینے پر پابندی ہے۔ پی ٹی سی ایل کی لائن آئے روز خراب ہوئی رہتی ہے اور انٹرنیٹ کی رفتار بھی کم رہتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ سرکاری اسکول 70 کروڑ روپے کے قریب صرف فون اور انٹرنیٹ کی مد میں ادا کرتے ہیں جبکہ بقول انتظامیہ کئی دوسری کمپنیاں بہتر سہولیات آدھی سے بھی کم قیمت پر مہیا کر رہی ہیں۔

ہم نے اس حوالے سے اے جی پی آر سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ پی ایس او فلیٹ کارڈ اور نیشنل بینک کی پالیسی حکومت نے بنائی ہے، ان کا محکمہ تو صرف ڈاک خانے کا کام کرتا ہے۔ وزارت خزانہ بات کی تو وزیر کے دفتر سے سیکریٹری اور سیکریٹری آفس سے ایڈیشنل سیکریٹری تک کسی کو غریب کے بچے کی تعلیم میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ پوری وزارت میں ترجمان کوئی نہیں، افسران ایک سے دوسرا دروازہ دکھاتے رہے۔ تادم تحریر معاملہ حل طلب ہے۔

یہ بہ ظاہر ایک معمولی واقعہ ہے لیکن اسی طرح کی بد انتظامی یا اقرباپروری سے ہم نے اسٹیل مل، پی آئی اے اور دوسرے کئی اداروں کو سفید ہاتھی بنا دیا ہے جو ملک و قوم پر بوجھ بنے ہیں۔ ہم کیوں اس فہرست میں مزید اضافہ کررہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں