سپریم کورٹ میں ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ 4 سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے کہ ایک کیس ختم نہیں ہوا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کی جسے براہ راست نشر کیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

سماعت شروع ہونے پر ایم کیو ایم (پاکستان) کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ درخواستیں قابل سماعت ہونے کا سوال نہیں اٹھاؤں گا، درخواست گزاروں نے جن دو فیصلوں کا حوالہ دیا ان پر بات کروں گا، ایک باز کاکڑ کیس کا حوالہ دیا گیا، دوسرا سپریم کورٹ ریویو ایکٹ سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر درخواست گزاروں کی ان فیصلوں کی تشریح درست ہو پھر تو ایکٹ غلط ہے، ان فیصلوں اور موجودہ کیس میں مگر فرق ہے، کیس میں فریق نہیں ہوں، عدالت کے نوٹس پر پیش ہوا، سوال ہوا کہ کیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سادہ اکثریت کی قانون سازی سے بدل سکتے ہیں، ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 میں ’لا‘ کا لفظ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔

اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ تھا کہ کیا ’سبجیکٹ ٹو لا‘ کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے؟

دوران سماعت چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ ہوا، جسٹس منیب اختر نے وکیل کو سوال پر فوکس کرنے کی ہدایت دی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرا خیال ہے وکیل کا حق ہے وہ جیسے دلائل دینا چاہے دے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بینچ میں بیٹھے جج کے طور پر سوال کرنا میرا حق ہے، آئی ایم سوری مجھے بار بار ٹوکا جائے تو یہ درست نہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت دی کہ آپ سوالات کا جواب دینے کے بجائے اپنی بات پہلے مکمل کریں، بینچ اراکین سے درخواست کروں گا پہلے انہیں بات مکمل کرنے دیں۔

چیف جسٹس کے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ صرف یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 191 میں ’لا‘ کا کیا مطلب ہے؟

چیف جسٹس نے جسٹس منیب سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ نے پہلے ہی ذہن بنا لیا ہے تو فیصلے میں لکھ لیجیے گا، جسٹس منیب اختر نے جواب دیا کہ معذرت کے ساتھ میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور اس کا جواب دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ظاہر ہے آپ سوال کر سکتے ہیں لیکن پہلے وکیل دلائل تو مکمل کریں، 4 سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے کہ ایک کیس ختم نہیں ہوا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا اس قانون سے سپریم کورٹ کی اندرونی ورکنگ میں مداخلت ہوئی یا نہیں؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے جیسی قانون سازی نہیں کر سکتی، موجودہ قانون سے مگر یہ اصول متاثر نہیں ہوا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز میں ’لا‘ کی تعریف لکھی ہے، سپریم کورٹ رولز بناتے وقت اس بات پر کوئی ابہام نہیں تھا کہ ’لا‘ کا کیا مطلب ہے، ’سبجیکٹ ٹو‘ اور ’لا‘ کو الگ الگ بھی پڑھ سکتے ہیں۔

وکیل ایم کیو ایم کی ایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا

دریں اثنا ایم کیو ایم نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی حمایت کر دی، ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے ایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت ہیں مگر میرٹ پر خارج کی جائیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آئین نے یہ کیوں کہا کہ عدلیہ، ایگزیکٹو اور مقننہ الگ الگ ہیں؟ ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ایکٹ کو سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا لیجسلیٹو انٹریز پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں؟

جسٹس منیب اختر نے بطور ریفری جج اپیل کے حق میں لکھا، فیصل صدیقی

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ اہم سوال ہے جس کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں، اگر آرٹیکل 191 کو لیجسلیٹو انٹری 58 کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار تھا، صلاح الدین نے اسی کا حوالہ دے کر کہا کہ پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ رولز ختم بھی کر سکتی ہے، اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میری رائے صلاح الدین احمد سے مختلف ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے پروسیجرز میں لفظ پریکٹس کا کیا مطلب ہے؟

فیصل صدیقی نے جسٹس منیب اختر کے بطور ریفری جج دیے گئے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس منیب اختر نے اپیل کے حق میں لکھا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ وہاں بات قانون میں دیے گئے اپیل کے حق کی تھی۔

پارلیمنٹ نے انصاف تک رسائی کی ہی ایک قانون سازی کی ہے، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 175 کو انٹری 55 کے ساتھ پڑھیں تو کیا پارلیمنٹ کو عدالت کا دائرہ اختیار بڑھانے کی اتھارٹی نہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سادہ قانون سازی سے ایسا کرنا کیا آئین میں ترمیم کرنے جیسا نہیں؟

دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا، سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے، رول بنانے کو مگر قانون سے مشروط کیا گیا ہے، جسٹس منیب نے آئینی تاریخ کی بات کی تھی اس تناظر میں بات کروں گا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ وہ کیا ضروریات تھیں جن کی بنیاد پر پارلیمنٹ نے یہ ایکٹ بنایا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس اختیار قانون سازی ہے، پارلیمنٹ نے انصاف تک رسائی کی ہی ایک قانون سازی کی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرٹیکل 191 کی لینگویج سبجیکٹ ٹو لا سے شروع ہوتی ہے، بہت کم ایسے آرٹیکل ہیں جو ایسے الفاظ سے شروع ہوں، فیصل صدیقی نے کہا کہ آئین کے صرف تین ایسے آرٹیکل ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا ان الفاظ سے پروسیجر میں بہتری کی گنجائش چھوڑی گئی؟ آرٹیکل 184/3 جب بھی استعمال ہوا ملک کی بنیادیں ہلا دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جرمنی میں ایک نظام وضع کیا گیا جہاں ماسٹر آف روسٹر نہیں ہوتا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا بینچ بھی رولز کا پابند ہے؟

فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا خیال ہے پابند ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انتظامی طور پر بنائے گئے رولز جوڈیشل اختیار استعمال کرتے ہوئے بھی بائنڈنگ ہیں؟ کوئی بینچ بیٹھ کر رولز کو غیر آئینی کہہ سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا بینچ 1980 کے رولز سے متعلق آرڈر دے سکتا ہے؟ اگر پارلیمنٹ بھی نہیں کر سکتی بینچ بھی نہیں کر سکتا تو پھر سارا اختیار ایک شخص کے پاس رہ جاتا ہے، فیصل صدیقی نے کہا کہ رولز کی آئینی حیثیت پر بینچ آرڈر دے سکتا ہے۔

صرف اس بنیاد پر قانون کالعدم ہو سکتا ہے صرف ایک صورتحال میں اپیل کا حق متاثر ہوگا؟ چیف جسٹس

جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ ہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل صرف سنگل بینچ کے خلاف ہوتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صدیقی صاحب اس سے پہلے فل کورٹ کب ہوئی؟ میرا خیال ہے 2015 میں آخری بار فل کورٹ بیٹھی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی بات صحیح ہے 21ویں آئینی ترمیم پر بیٹھی تھی، اتنے سال میں ایک فل کورٹ پر آپ پریشان ہیں؟ کل مستقبل میں کیا ہو گا وہ جب آئے گا دیکھ لیں گے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اپیل کا سوال ٹھیک سے سمجھا نہیں گیا، سوال یہ تھا فل کورٹ کے خلاف اپیل کہاں جائے گی۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا نہیں خیال کے فل کورٹ کے خلاف اپیل کی ضرورت ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون میں یہ کہاں لکھا گیا ہے، اپیل کا حق برقرار رکھنے کے لیے آپ کبھی فل کورٹ بنا ہی نہیں سکیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صرف اس بنیاد پر قانون کالعدم ہو سکتا ہے کہ صرف ایک صورتحال میں اپیل کا حق متاثر ہو گا؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ممکن ہے کوئی میرے سوال سے اتفاق نہ کرے، کسی کو اپیل کا حق ملے گا کسی کو نہیں ملے گا، اپیل کا حق ملنے سے دوبارہ قوانین بنیں گے، پارلیمان نے کہا ہے اپیل ہونی چاہیے، اس کا مطلب ہے کہ 184/3 کے ہر حکم پر اپیل ہونی چاہیے۔

ہم اس ایکٹ کی حمایت کرتے ہیں، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر لارجر بینچ ہے تو اپیل نہیں ہو گی، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ ہائی کورٹس میں بھی ڈویژن بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں ہوتی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا ان ترمیم سے پہلے سوچ بچار کی گئی تھی؟ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ اپیل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ لارجر بینچ اپیل سنے گا، لارجر بنچ کی تعداد نہیں بتائی گئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اپیل کے حق کو محفوظ کرنے کے لیے آپ فل کورٹ نہیں بنا سکتے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مفروضوں پر بات کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہوگئے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے فیصل صدیقی کے دلائل کی تعریف کی، ان کے بعد پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس ایکٹ کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت؟ ہارون الرشید نے کہا کہ ہم اس ایکٹ کی حمایت کرتے ہیں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وکلا کے درمیان اتنا اختلاف کیسے آیا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایکٹ کی مخالفت کر رہی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس کا جواب یہ ہے کہ دو ذہین دماغ اختلاف کر سکتے ہیں۔

ان کے بعد اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آکر کہا کہ میں دلائل مختصر رکھوں گا، ایک گھنٹے میں مکمل کروں گا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ ایک گھنٹے میں نہیں جاسکیں گے، سوالات کی بمباری ہو گی۔

جس کے بعد عدالت نے اٹارنی جنرل کو کل سننے کا فیصلہ کیا اور سماعت دن 11 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے آج کا آرڈر لکھوا دیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز 9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پوری ہونی چاہیے لیکن فرد واحد آکر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تو اُس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں اور دو تہائی اکثریت نہ ہونے پر پارلیمنٹ کے اچھے کام رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔

3 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا تھا کہ اس ایکٹ سے عدالت عظمیٰ کے اختیارات کیسے کم ہوئے؟

قبل ازیں 18 ستمبر کو ہونے والی سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو 25 ستمبر تک عدالتی سوالات کے جوابات کے ساتھ تحریری دلائل جمع کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ بینچوں کی تشکیل کے لیے دونوں سینئر ججوں سے مشاورت کر رہا ہوں۔

ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے آخر میں حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا تھا کہ بینچز کی تشکیل کے لیے سینئر ترین جج سردار طارق مسعود اور جج اعجازالاحسن سے مشاورت کر رہے ہیں اور یہ ہم اپنے طور پر کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے فریقین سے کہا تھا کہ وہ اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیں اور سماعت کی تاریخ 3 اکتوبر مقرر کردی تھی، جس پر درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے اتفاق کیا تھا۔

حکم نامے میں چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے دائر کی گئیں درخواست فل کورٹ کی تشکیل کی بنیاد پر نمٹا دی گئی ہیں۔

درخواستوں کا متن

واضح رہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا نفاذ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو معطل کر دیا تھا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججوں پر مشتمل فل کورٹ، ایکٹ معطلی کے فیصلے کو منسوخ کر سکتا ہے۔

قانون کو معطل کرتے ہوئے رخصت ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت عظمیٰ، پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے لیکن اس نے اس بات کا جائزہ بھی لینا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے نفاذ میں آئین سے انحراف، آئین کی خلاف ورزی یا آئین سے ماورا کوئی شق تو شامل نہیں کی گئی۔

درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا تصور، اس کی تیاری، اس کی توثیق اور اس کو منظور کیا جانا بددیانتی پر مبنی ہے، لہٰذا اسے خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو عدالت عظمیٰ کے آئین کے تحت کام یا چیف جسٹس سمیت اس کے دیگر ججز کے اختیارات میں مداخلت کا باعث ہو یا جس کے ذریعے اس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ وہ نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے پر غور کریں یا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی قانونی حیثیت کا فیصلہ ہونے تک انتظار کریں۔

اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کو آج 18 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے لیے نوٹس پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔

پس منظر

10 اپریل 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا گیا۔

12 اپریل کو وفاق حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔

اسی روز سپریم کورٹ میں ایکٹ منظوری کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئیں، 2 درخواستیں وکلا اور دو شہریوں کی جانب سے دائر کی گئیں، جنہیں 13 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔

13 اپریل کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا۔

21 اپریل کو عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق مجلس شوریٰ (پارلیمان) کا سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 دستور پاکستان کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت صدر سے منظور شدہ سمجھا جائے گا۔

قانون کی شقیں

بینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں