حکومت سندھ کا میڈیکل کالجوں میں داخلے کا ٹیسٹ دوبارہ کرانے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2023
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے حکومت سے انکوئری رپورٹ پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے— فائل فوٹو: آئی ایم پی
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے حکومت سے انکوئری رپورٹ پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے— فائل فوٹو: آئی ایم پی

حکومت سندھ نے مبینہ پیپر لیک انکوائری رپورٹ کے بے چینی سے منتظر نتائج ظاہر کیے بغیر اعلان کیا ہے کہ متنازع میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) 2023 کا ڈاؤ یونیورسٹی کے ذریعے دوبارہ انعقاد کیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں یہ اعلان سامنے آیا۔

بیان میں بتایا گیا کہ نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر ڈاؤ یونیورسٹی کے ذریعے ایم ڈی کیٹ 2023 دوبارہ کرانے کی منظوری دی ہے، انہوں نے معاملہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بھیج دیا تاکہ مجرموں کو سامنے لایا جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ کمیٹی نے انکشاف کیا کہ ایم ڈی کیٹ داخلہ ٹیسٹ کا پرچہ تقریباً 4 سے 5 گھنٹے قبل لیک ہو گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق حکومت کو یہ فیصلہ کرنے میں ایک ماہ کا عرصہ لگا جس کا صوبہ بھر کے 40 ہزار طلبہ کو شدت سے انتظار تھا، جنہوں نے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے زیر اہتمام ٹیسٹ دیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ انکوائری رپورٹ کو پبلک نہ کرنے کو ترجیح دی گئی اور معاملہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا، جبکہ انہیں رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کرنے کی کوئی ڈیڈلائن نہیں دی گئی۔

یہ بتانا ضروری ہے کہ جس کمیٹی کی سفارش پر نگران وزیر اعلیٰ نے انٹری ٹیسٹ کے دوبارہ انعقاد کا اعلان کیا ہے، اس میں ایف آئی اے کا ایک رکن بھی شامل ہے، جبکہ اسی کمیٹی کو پیپر لیک کے الزامات کی نہ صرف تحقیقات بلکہ ذمہ داری کا تعین کرنے کا کام بھی سونپا گیا تھا۔

صوبائی چیف سیکریٹری کی طرف سے 19 ستمبر کو جاری کردہ نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ ’کمیٹی 10 ستمبر کو ہونے والے ایم ڈی کیٹ 2023 کے پیپر لیک ہونے کے الزامات کی تحقیقات کرے گی، اور قصورواروں کا تعین کرے گی۔‘

انکوائری کمیٹی کو سیکریٹری صحت کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا تھا، یہ وزیر صحت کی جانب سے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی طرف سے تشکیل کردہ پہلی انکوائری کمیٹی کی تحلیل کے بعد قائم کی گئی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ تاہم یہ رپورٹ گزشتہ ہفتے پہلے سیکریٹری ہیلتھ اور اس کے بعد وزیراعلیٰ کو پیش کی گئی، جنہوں نے مبینہ طور پر اسے یونیورسٹیز اور بورڈز کو جاری کرنے کے لیے بھیجی۔

محکمہ صحت کے ایک حکام نے بتایا کہ بظاہر رپورٹس کے نتائج پر متعدد تحفظات ہیں اور یہ معاملہ وزیراعلیٰ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کمیٹی نے لیک میں ملوث کچھ روابط کی نشاندہی کی ہے اور اس نے سوال کیا ہے کہ ٹیسٹ کے عمل میں ایک باقاعدہ عہدیدار کو شامل کرنے کے بجائے ہنگامی بنیادوں پر ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر کا تقرر کیوں کیا گیا۔

رپورٹ کو پبلک کرنے کا مطالبہ

دریں اثنا، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے حکومت سے انکوئری رپورٹ پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پی ایم اے کے نمائندے ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے بتایا کہ حکومت سب کچھ جانتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی کا تحفظ کررہی ہے، ہم کمیٹی کے نتائج جانا چاہتے ہیں، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر مجرموں کو ایسے ہی جانے دیا تو اگلے برس بھی اسی طرح کی صورتحال پیش آئے گی۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت کے پاس تمام متعلقہ ڈیٹا موجود ہے اور لازمی طور پر 2 ہفتوں کے اندر دوبارہ ٹیسٹ کیا جانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں