وفاقی حکومت اپنے 10 لاکھ 92 ہزار ملازمین کو تنخواہوں، پینشن اور مختلف اقسام کی مراعات کی مد میں 80 کھرب روپے کی رقم ادا کر رہی ہے، جبکہ اس بات کا تعین نہیں کیا جاتا کہ ان کا کردار کتنا مثبت ہے اور اس کے ٹیکس دہندگان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدلیہ سب سے زیادہ خصوصی مراعات حاصل کر رہی ہے، پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز (سابقہ ڈی ایم جی) کو خصوصی مراعات حاصل ہیں، بجائے اس کے کہ دیگر پیشہ ور عملے کو مراعات کی اجازت دی جائیں تاکہ وہ ٹیکس دہندگان کو بدلے میں کچھ نتائج فراہم کرسکیں۔

یہ ندیم الحق کی سربراہی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی پانچ رکنی ٹیم کے کیے گئے مطالعے سے اخذ کی گئی ہے۔

’سرکاری ملازمین کی زندگی بھر کی لاگت‘ کے عنوان سے کیے گئے مطالعے میں بتایا گیا کہ پاکستان میں سرکاری ملازمین کو ادا کی جانے والی رقم 3 کھرب کے لگ بھگ ہے، جبکہ پینشن کی مد میں 1.5 کھرب ادا کیے جا رہے ہیں۔

علاوہ ازیں پروجیکٹ پر کام کرنے والے حکومتی کمپنیوں کے ملازمین اور دیگر تنظیموں کو ادا کی جانے والی رقم تقریباً 2.5 کھرب ہے، اسی طرح افواج کو تنخواہوں کی مد میں ادا کی جانے والی رقم ایک کھرب کے قریب ہے۔

بنیادی تنخواہ کے اسکیل میں نظرثانی

رپورٹ کے مطابق 1983 کے بنیادی تنخواہ اسکیل (بی پی ایس) کو کئی مرتبہ نظر ثانی کے مراحلے سے گزرنا پڑا بلکہ سال 2022 میں اس میں 12 ترامیم بھی کی گئی، افسوس کہ دورِ حاضر کے قواعد کو مدِنظر رکھتے ہوئے ترامیم نہیں کی گئیں، جو مارکیٹ کی ضروریات اور عوامی شعبے کے عین مطابق ہو۔

مطالعے کے مطابق بی پی ایس سسٹم نے پبلک سیکٹر میں چند معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ایک تنخواہ کے پیمانے کا ڈھانچہ برقرار رکھا، لیکن پی اے ایس نے غیر مالیاتی فوائد اور بہتر تقرریوں کے ساتھ اسے اپنایا، اس میں غیر مالی فوائد اور گریڈز کے لحاظ سے تکنیکی یا ہنرمند گریڈز پیچھے رہ گئے۔

بعد ازاں، قومی تنخواہ کے نظام کو بی پی ایس میں تنخواہ اور خصوصی تنخواہ کے پیمانے میں تکنیکی یا شعبے کے ماہرین کے طور پر شامل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن یہ مشکل تھا کیونکہ ابھی تک سب پی اے ایس کے تابع ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات پر کیے گئے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ تصور کے برعکس سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کا فائدہ حاصل نہیں ہے، دراصل وہ کئی دیگر فوائد حاصل کر رہے ہیں، جو ان کی تنخواہ کی رسید میں ظاہر نہیں ہوتے۔

گریڈ 20 اور 22 کے افسران کی جانب سے سرکاری گاڑیوں کا ذاتی استعمال کی لاگت بنیادی تنخواہ سے ایک گناہ سے زیادہ ہے، جبکہ میڈیکل الاؤنسز کے بلز اس کے علاوہ ہیں۔

اگر سرکاری ملازمین کی مراعات اور دیگر الاؤنسز کو شامل کیا جائے تو اس تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ پبلک سیکٹر میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں، عدلیہ کے ملازمین سب سے زیادہ مراعات وصول کرتے ہیں، اسی طرح سیکرٹریٹ اور دیگر وزارتوں کا اسٹاف بھی اپنی تنخواہ سے 150 فیصد زیادہ الاؤنسز کی مد میں لیتا ہے۔

پاکستان میں غیر پیداواری سرکاری ملازمین بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو معاشی چیلنجز میں مسلسل اضافے کا باعث ہیں، سیاست دان یہ جانتے ہوئے ان ملازمین کو اپنے پسندیدہ شعبوں میں تعینات کر کے فخر محسوس کرتے ہیں کہ ٹیکس دہندگان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں اور وہی اس کی قیمت ادا کریں گے۔

مطالعے کے مطابق اب تک کوئی اس جانب توجہ نہیں دے رہا کہ اس کی سیاسی قیمت کیا ہوگی، بہت سے سیاسی افراد کو ایسے شعبوں میں رکھا گیا ہے جہاں وہ پیداواری ثابت نہیں ہو رہے ہیں بلکہ بجٹ پر بھی بوجھ ہیں۔

غلط طریقے سے ملازمین کی بھرتی کی لاگت مالی نقصانات اور مواقع کی لاگت دونوں اعتبار سے نمایاں طور پر زیادہ ہوسکتی ہے، ان سیاسی بھرتیوں کے معاشی نقصانات اور مواقع کی قیمت اہم ہو سکتی ہے، ترقی پذیر معیشتوں میں حکومتوں کے ملازمت کے طریقے کار اکثر سیاسی محرکات، قلیل مدتی توجہ، معاشی مہارت کی کمی اور سماجی توقعات کے امتزاج سے پیدا ہوتے ہیں۔

فوری طور پر ملازمت کے مواقع پیدا کرنا مثبت ثابت ہو سکتا ہے، تاہم یہ انتہائی اہم ہے کہ قلیل مدتی فوائد اور پائیدار مالیاتی پالیسیوں کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں