ایون فیلڈ، العزیزیہ ریفرنسز: نواز شریف نے سزا کے خلاف اپیل بحالی کی درخواست پر دستخط کردیے

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2023
مسلم لیگ (ن) کے ایک وکیل نے بتایا کہ یہ درخواستیں نواز شریف کی قانونی ٹیم نے تیار کی ہیں — فوٹو: ایکس/اسحٰق ڈار
مسلم لیگ (ن) کے ایک وکیل نے بتایا کہ یہ درخواستیں نواز شریف کی قانونی ٹیم نے تیار کی ہیں — فوٹو: ایکس/اسحٰق ڈار

سابق وزیراعظم اور سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف نے گزشتہ روز اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور العزیزیہ ریفرنسز میں اپنی سزاؤں کے خلاف زیر التوا اپیلوں کی بحالی کے لیے درخواستوں پر دستخط کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے ایک وکیل نے بتایا کہ یہ درخواستیں ان کی قانونی ٹیم نے تیار کی ہیں جو کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ میں دائر کی جائیں گی اور ان کی سماعت منگل (24 اکتوبر) کو ہونے کا امکان ہے۔

نواز شریف کی قانونی ٹیم حفاظتی ضمانت کی درخواست بھی پیش کرے گی، علاوہ ازیں نواز شریف کو اسی روز احتساب عدالت میں بھی پیش ہونا ہے۔

سابق وزیراعظم کو ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا سنائی گئی تھی اور توشہ خانہ کیس میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا جو کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں زیر سماعت ہے، ان مقدمات میں طبی بنیادوں پر ضمانت حاصل کرکے وہ 2019 میں علاج کے لیے برطانیہ چلے گئے تھے۔

عام انتخابات سے چند روز قبل 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف اور ان کے شوہر صفدر اعوان کو مجرم قرار دیا تھا، 6 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اس کیس کی تفتیش کی تھی جو کہ پاناما پیپرز کے انکشافات کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔

ٹرائل کورٹ نے مریم نواز پر بھی یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ آف شور کمپنیوں کی بینیفشل اونر ہیں جن کی زیر ملکیت جائیدادیں ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے احتساب عدالت کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں نواز شریف کو عملی طور پر کلیئر کر دیا تھا، تاہم نواز شریف کو مفرور قرار دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت کی جانب سے ان کے خلاف ٹھوس شواہد کی کمی کے باوجود انہیں بری نہیں کیا گیا۔

تفصیلی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ احتساب کا ادارہ اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا کہ کیا استغاثہ نے اپنے اوپر عائد مطلوبہ ذمہ داری کو پورا کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ استغاثہ کو یہ ثابت کرنا تھا کہ نواز شریف نے کرپٹ اور غیر قانونی طریقوں سے مریم نواز کے نام پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے اور مریم نواز نے ان کے زیر کفالت ہونے کی وجہ سے حقیقی ملکیت کو چھپا کر ان کی مدد اور تعاون کیا تھا۔

فیصلے کے مطابق پراسیکیوشن کو یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ جب جائیدادیں خریدی گئیں تو نواز شریف پبلک آفس ہولڈر تھے، تاہم ریکارڈ پر ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

ایک دلچسپ موڑ تب آیا جب احتساب عدالت کے جج ارشد ملک (جنہوں نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنائی تھی لیکن انہیں فلیگ شپ انویسٹمنٹ کیس میں بری کر دیا تھا) نے بعد ازاں ایک آڈیو لیک میں اعتراف کیا کہ نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے ان پر دباؤ تھا۔

بعد ازاں ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور 4 دسمبر 2020 کو وہ کورونا وبا کے دوران انتقال کر گئے۔

بائیو میٹرک تصدیق پر تنازع

دریں اثنا اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر نواز شریف کی بائیو میٹرک تصدیق نے سوشل میڈیا پر تنازع کھڑا کر دیا، کئی سیاسی جماعتوں، بالخصوص پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کارکنان نے اسے امتیازی سلوک قرار دیا۔

کچھ لوگوں نے تو یہاں تک الزام عائد کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے اسٹاف کو ہوائی اڈے پر تعینات کیا تھا تاکہ وہ نواز شریف کو یہ خصوصی سہولت فراہم کرنے کے لیے وہیں موجود ہوں۔

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سینیئر افسر نے اس تاثر کو مسترد کر دیا، انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ بائیو میٹرک تصدیق کا معاملہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے تحت آتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ درخواست دہندہ خود ہی درخواست دائر کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ کار ماضی میں پیش آنے والے چند واقعات کی وجہ سے لازمی ہو گیا ہے جہاں درخواستوں سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا گیا تھا یا غیر مجاز افراد نے درخواستیں جمع کروا دی تھیں، جس سے کیس کی سماعت کا عمل ایک فضول مشق بن کر رہ گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سے درخواستوں، سول متفرق درخواستوں، اپیلوں، جوابات اور جواب دہندگان کی جانب سے رپورٹس دائر کرنے کے لیے بائیو میٹرک تصدیق کو لازمی قرار دے دیا گیا، بائیو میٹرک تصدیق اسلام آباد ہائی کورٹ، نادرا سروس سینٹرز یا پھر یہ سروس پیش کرنے والے کسی بھی کیوسک یا فرنچائز پر کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے بھی فرنچائز کے ذریعے پی ٹی آئی کے وکلا کو اسی سہولت کی پیشکش کی تھی جب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ضمانت کی درخواست دائر کرنی تھی، لیکن وزیر آباد واقعے میں زخمی ہونے کی وجہ سے وہ بائیو میٹرک تصدیق کے لیے خود نہیں آسکے تھے۔

نواز شریف کیلئے سرکاری پروٹوکول

دریں اثنا نواز شریف جب گزشتہ روز اسلام آباد سے لاہور میں مینار پاکستان پر جلسہ عام سے خطاب کرنے پہنچے تو غیر معمولی طور پر لاہور کی سول انتظامیہ نے اُن کو سرکاری پروٹوکول دیا۔

نواز شریف کا ہیلی کاپٹر جب لاہور فورٹ پر اترا تو کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا اور سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ اُن کے آبائی شہر لاہور میں اُن کا استقبال کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے ساتھ آگے آگے نظر آئے، سی سی پی او نے ایک قدم آگے بڑھ کر نواز شریف کو سلیوٹ بھی کیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنرز کو صوبے بھر سے لاہور آنے والے مسلم لیگ (ن) کے تمام قافلوں کو سہولت فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں