انتخابات کیس: نئی مردم شماری کالعدم قرار دیں تو انتخابات کس مردم شماری کے تحت ہوں گے؟ چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2023
چیف جسٹس نے عابد زبیری  سے مکالمہ کیا کہ آپ جذباتی نہیں، آئین کے مطابق دلائل دیں—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کیا کہ آپ جذباتی نہیں، آئین کے مطابق دلائل دیں—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

ملک میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر نئی مردم شماری کالعدم قرار دیں تو آئندہ عام انتخابات کس مردم شماری کے تحت ہوں گے۔

چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری اور پی ٹی آئی کی طرف سے وکیل بیرسٹر علی ظفر ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کی درخواست پر تو رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل ہے، یہ اپیل تو چیمبر میں لگتی ہے، کھلی عدالت میں کیسے لگی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ عابد زبیری صاحب آپ اپنی درخواست میں کیا مانگ رہے ہیں، آپ نے درخواست کب دائر کی؟ اپنی استدعا پر آئیں، وکیل عابد زبیری نے عدالت کے سامنے اپنی درخواست پڑھی۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری بھی ایک اپیل سماعت کے لیے مقرر ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات عائد کیے تھے، اعتراضات کے خلاف تو جج چیمبر اپیل سنتا ہے، چلیں ہم اس معاملے کو دیکھ لیتے ہیں۔

صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے 16 اگست کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، درخواست پر نمبر لگ گیا، جلد کیس مقرر کرنے کی درخواست کے باوجود کیس نہیں سنا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے ابھی آفس کی طرف سے ایک نوٹ بھیجا گیا ہے، اس میں تو لکھا ہے آپ نے کبھی کیس کی جلد سماعت کی درخواست ہی دائر نہیں کی، آپ صدر سپریم کورٹ بار ہو کر عدالت سے غلط بیانی کر رہے ہیں، عام انتخابات سے متعلق درخواست تو انتہائی اہمیت کا حامل مقدمہ ہے، اہم مقدمہ ہے، فوری سماعت ہونی چاہیے تھی، اب تک تو اس کیس کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں صرف اس سوال کا جواب دے دیں کہ نئی مردم شماری کالعدم قرار دیں تو انتخابات کس مردم شماری کے تحت ہوں گے۔

عابد زبیری نے کہا کہ میں ایک عدالتی فیصلہ بطور نظیر پیش کرنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم نے عدالتی فیصلوں پر ہی انحصار کرنا ہے تو آپ کو کیوں سن رہے ہیں، پھر ہم عدالتی فیصلہ دیکھ کر خود ہی حکم جاری کر دیتے ہیں۔

عابد زبیری نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں کے پی اور پنجاب کے نگران وزرائے اعلیٰ کا شرکت کرنا غیر آئینی تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں آئین میں کہاں لکھا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں نگران وزرائے اعلیٰ شریک نہیں ہو سکتے، آپ جذباتی نہیں، آئین کے مطابق دلائل دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 90 دنوں میں انتخابات کے انعقاد کی آئینی شق کی خلاف ورزی تو ہوچکی، کیا آپ اپنی درخواست پر اب بھی چاہتے ہیں کہ کارروائی ہو۔

عابد زبیری نے کہا کہ 90 دن گزر جانے کے باوجود دو نگران صوبائی حکومتیں اب بھی کام کر رہی ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس کے لیے الگ سے کوئی درخواست دائر کریں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر ہم مردم شماری کے معاملے میں پڑے تو انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی سوال ایک ہی ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ انتخابات 2017 کی مردم شماری ہے مطابق ہوں، ہم مختصر وقفے کے بعد آرہے ہیں، آپ اس معاملے پر تیاری کرلیں۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے وفاق اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 2 نومبر 2023 کے لیے ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کے 90 روز کے اندر عام انتخابات کرانے کی تاریخ کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد شاہد زبیری نے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواست میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے اور نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کرانےکا مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا فیصلہ بھی چیلنج کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلےکی روشنی میں جاری نوٹی فکیشن غیر قانونی قرار دیا جائے، مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں خیبرپختونخوا (کے پی) اور پنجاب کے نگران وزرائے اعلیٰ شریک تھے اور اس طرح مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل آئینی نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا کورم ہی پورا نہیں ہوا، کونسل کی تشکیل اور کورم پورا نہیں ہو تو اس کے فیصلوں پر عمل در آمد کیسے ممکن ہوگا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے کے لیے متعلقہ فورم نہیں بنتا تھا، آئین کا آرٹیکل 224 کی شق 2 الیکشن کمیشن کو انتخابات 90 دنوں کے اندر کرانے کا پابند کرتی ہے۔

سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے استدعا کی ہے کہ عدالت قرار دے کہ الیکشن کمیشن کسی صورت انتخابات 90 دنوں سے آگے نہیں بڑھا سکتا، الیکشن کمیشن کے پاس کوئی آئینی اختیار نہیں کہ وہ نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر کرے۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں وفاق، مشترکہ مفادات کونسل، چاروں صوبوں اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔

29 اگست کو جماعت اسلامی نے اپنے وکیل غلام محی الدین ملک کے توسط سے آئین کے آرٹیکل 224 (2) کے تحت 90 روز کے اندر عام انتخابات کرانے کی درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت عظمیٰ، الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 (2) کے مطابق الیکشن کمیشن کو فوری طور پر الیکشن شیڈول کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کی ہدایت جاری کرے۔

اس میں مزید استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت مقررہ مدت کے اندر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں ایگزیکٹو اتھارٹیز کو مدد اور تعاون کا حکم دیا جانا چاہیے۔

جماعت اسلامی کی جانب سے درخواست دائر کرنے سے 2 روز قبل پی ٹی آئی کی جانب سے اسی طرح کی ایک درخواست پارٹی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے دائر کی تھی۔

درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ الیکشن کمیشن کو الیکشن شیڈول جاری کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنرز کو بھی ہدایت جاری کرے کہ وہ پنجاب اسمبلی الیکشن کیس کےعدالتی فیصلے کے مطابق متعلقہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔

ایڈووکیٹ سید علی ظفر کے توسط سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے 5 اگست کو ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے فیصلے کو جس کے تحت نئی حد بندیوں کو لازمی قرار دیا گیا تھا، غیر قانونی، خلاف قانون قرار دے کر کالعدم کرے۔

اس کے علاوہ پاکستان شماریات بیورو کی جانب سے 8 اگست کو جاری کردہ نوٹی فکیشن کو بھی غیر قانونی قرار دیا جائے جس میں 2023 کی مردم شماری کو پبلک کیا گیا تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئین کے تحت بروقت انتخابات عوامی اہمیت کے حامل اور بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں