ایون فیلڈ، العزیزیہ ریفرنسز: اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2023
نواز شریف کی جانب سے درخواستیں اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز کے ذریعے دائر کی گئیں — فائل فوٹو: اے پی
نواز شریف کی جانب سے درخواستیں اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز کے ذریعے دائر کی گئیں — فائل فوٹو: اے پی

سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی جانب سے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کردی گئیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی خصوصی بینچ العزیزیہ ریفرنس اور ایون فیلڈ ریفرنس پر سزا کے خلاف اپیلوں کی بحالی کی نواز شریف کی درخواستوں پر کل سماعت کرے گا۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز کے ذریعے نواز شریف نے درخواست دائر کردی تھی۔

درخواست میں یاددہانی کروائی گئی کہ لندن میں قیام طویل ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے جون 2021 میں نواز شریف کی اپیلیں خارج کردی تھیں، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے عدم پیروی پر نواز شریف کی اپیلیں خارج کی تھیں۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ نواز شریف نے کبھی ضمانت کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا، وہ تمام مقدمات میں ضمانت پر تھے، متعلقہ عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ نواز شریف کی عدالت سے غیر حاضری جان بوجھ کر یا بدنیتی کے سبب نہیں تھی، نواز شریف طبی بنیادوں پر عدالت پیش نہیں ہوئے، کورونا وبا کے باعث علاج میں تاخیر ہوئی۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ نواز شریف بیماری سے مکمل ریکور نہیں ہوئے ہیں لیکن ملک کے بدتر معاشی حالات اور مختلف محاذوں پر درپیش چیلنجز کو دیکھ واپس آنے کا فیصلہ کیا۔

نواز شریف کی جانب سے دائر درخواست میں مزید کہا گیا کہ جان بوجھ کر پیش نہ ہونے کا مفروضہ نواز شریف کے سابقہ ٹریک ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتا، اُن کا عدالتوں میں پیش ہونے سے متعلق ٹریک ریکارڈ مثالی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ نواز شریف، وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں، انہوں نے بیرون ملک سے واپس آکر ٹرائل کا سامنا کیا، اُن کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گئی، انہوں نے قانون کی حکمرانی کا پاس رکھتے ہوئے بیرون ملک سے واپس آکر گرفتاری دی۔

درخواستوں میں استدعا کی گئی ہے کہ نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلیں گزشتہ عدالتی کارروائی کے ساتھ بحال کی جائیں، اُن کی سزا کے خلاف اپیلوں پر قانون کے مطابق میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ 19 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں 21 اکتوبر کو نواز شریف نے وطن واپسی پر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور العزیزیہ ریفرنسز میں اپنی سزاؤں کے خلاف زیر التوا اپیلوں کی بحالی کے لیے درخواستوں پر دستخط کردیے تھے۔

یاد رہے کہ نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سزا سنائی گئی تھی، العزیزیہ ملز ریفرنس میں انہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں 7 برس کے لیے قید کردیا گیا تھا تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں طبی بنیادوں پر لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

نواز شریف جیل میں صحت کی خرابی کے بعد نومبر 2019 میں علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوگئے تھے لیکن وہ تاحال پاکستان واپس نہیں آئے جبکہ ان کے خلاف پاکستان میں متعدد مقدمات زیر التوا ہیں۔

نواز شریف کی لندن روانگی سے قبل شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئےاس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ 4 ہفتوں یا ان کے ڈاکٹر کی جانب سےان کی صحت یابی کی تصدیق کے بعد وہ پاکستان واپس آجائیں گے۔

بعد ازاں گزشتہ سال اگست میں نواز شریف نے برطانوی محکمہ داخلہ کی جانب سے ’طبی بنیادوں پر‘ ان کے ملک میں قیام میں توسیع کی اجازت دینے سے انکار پر امیگریشن ٹربیونل میں درخواست دی تھی۔

جب تک ٹریبونل نواز شریف کی درخواست پر اپنا فیصلہ نہیں دے دیتا نواز شریف برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم رہ سکتے ہیں، ان کا پاسپورٹ فروری 2021 میں ایکسپائر ہوچکا تھا تاہم پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت بننے کے بعد ان کو پاسپورٹ جاری کردیا گیا تھا۔

تاہم رواں سال 12ستمبر کو سابق وزیراعظم شہباز شریف نے نواز شریف کی 21 اکتوبر کو وطن واپسی کا اعلان کیا تھا۔

لندن میں اسٹین ہاپ ہاؤس کے باہر نواز شریف کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آرہے ہیں۔

اس کے بعد شہباز شریف نے25 اگست کو بھی لندن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ فیصلہ ہوا ہے کہ پارٹی قائد نواز شریف اکتوبر میں پاکستان آئیں گے اور انتخابی مہم کی قیادت کریں گے۔

یاد رہے کہ 2020 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، عبدالغنی مجید اور انور مجید پر فرد جرم عائد کی تھی جب کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں