’گیس میسر ہی نہیں تو قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کیوں‘، پیپلز پارٹی کی حکومت پر تنقید

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2023
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے بعد مہنگائی میں بھی نمایاں کمی ہونی چاہیے تھی جوکہ اب تک نظر نہیں آرہی ہے — فوٹو: ڈان نیوز
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے بعد مہنگائی میں بھی نمایاں کمی ہونی چاہیے تھی جوکہ اب تک نظر نہیں آرہی ہے — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی نے نگران حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے فیصلوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو یہ معاملہ آئندہ منتخب ہو کر آنے والے لوگوں پر چھوڑ دینا چاہیے تھا۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل نگران وفاقی کابینہ نے گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی منظوری دی تھی جس کے تحت پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے گیس کے ماہانہ فکسڈ چارجز 3900 فیصد تک جبکہ گھریلو صارفین کے لیے گیس کے نرخ 194 فیصد تک بڑھا دیے گئے تھے۔

اس فیصلے کے تحت ماہانہ 0.25 سے 0.9 مکعب میٹر تک گیس کے پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے گیس کی اوسط قیمت 300 فیصد تک بڑھ جائے گی، جبکہ ان کے سالانہ بل میں 150 فیصد تک اضافے کا تخمینہ ہے۔

نگران وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ سمری میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے اوگرا کے مشورے کے مطابق صارفین کی مختلف کیٹیگریز کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے۔

بیان کے مطابق کابینہ نے گزشتہ روز اوگرا کی سمری کو دوبارہ غور کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو بھیج دیا تھا، جس کی اسی روز منظوری دے دی گئی۔

نئی قیمتوں کی توثیق کے بعد پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے فکسڈ چارجز 10 روپے سے بڑھا کر 400 روپے کر دیے گئے، جو 3900 فیصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔

زیادہ گیس استعمال کرنے والوں کے لیے ایک چوتھائی اضافہ کر کے ٹیرف ایک ہزار 600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھا کر 2 ہزار روپے کر دیا گیا ہے، جبکہ کمرشل کیٹیگری (تندور) کے لیے ٹیرف میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے، جو فی الحال 697 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔

کمرشل صارفین کے لیے ٹیرف میں اضافہ 3 ہزار 900 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو، سیمنٹ فیکٹریوں کے لیے 4 ہزار 400 روپے فی یونٹ اور سی این جی اسٹیشنز کے لیے 3 ہزار 600 روپے فی یونٹ کیا گیا ہے، جبکہ برآمدی صنعتوں کے لیے یہ 2 ہزار 100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور کیپٹو پلانٹس کے لیے 2 ہزار 400 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کردیے گئے ہیں۔

غیر برآمدی صنعتوں کے لیے گیس کے نرخ بڑھا کر 2200 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور کیپٹیو پلانٹس کے لیے 2500 روپے فی یونٹ کر دیے گئے ہیں، توانائی کے شعبے کو فراہم کردہ گیس کے نرخوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

قیمتوں میں اضافے کے فیصلے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جب کہ گزشتہ روز نگران وزیر توانائی محمد علی نے فیصلے کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کا خسارہ ختم کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ ضروری تھا، ماضی میں گیس کی قیمتیں بتدریج بڑھائی جاتیں تو آج ہمیں اتنا زیادہ اضافہ نہ کرنا پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ مجبوری کے تحت ملکی مفادات میں یہ فیصلہ کرنا ضروری تھا، چند سال قبل تک پاکستان کے اپنے گیس ذخائر اتنے تھے کہ ان ذخائر سے ہی پوری گیس عوام کو دے دی جاتی تھی اور انڈسٹری بھی چلا لیتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ گزشتہ 10 برس سے ہمارے گیس کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں، اس لیے ہمیں آر ایل این جی درآمد کرنی پڑتی ہے تاکہ عوام اور انڈسٹری کو گیس فراہم کی جا سکے، یہ مہنگی گیس ہوتی ہے جس کی قیمت ہماری مقامی گیس کی قیمت سے دگنی سے بھی زیادہ ہے اور جب یہ عوام کو فراہم کی جاتی ہے تو اس کی قیمت میں 210 ارب روپے کا فرق آتا ہے۔

نگران وزیر توانائی نے کہا تھا کہ اگر گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جاتا تو سوئی کمپنیوں کا ریونیو 513 ارب روپے ہوتا جبکہ ضرورت 916 ارب کی تھی، 400 ارب کے اس نقصان میں سے 191 ارب کا نقصان ہمارے اپنے ذخائر پر ہوتا جبکہ 210 ارب کا نقصان آر ایل ین جی پر ہوتا، لہٰذا ملک کا خسارہ ختم کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ضروری تھا، ماضی میں گیس کی قیمتیں بتدریج بڑھائی جاتیں تو آج ہمیں اتنا زیادہ اضافہ نہ کرنا پڑتا۔

دوسری جانب ایسے وقت میں جب کہ قوم بڑھتی مہنگائی سے سخت پریشان ہے، پاکستان پیپلز پارٹی نے نگران حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے کو ہدف تنقید بنایا۔

پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمٰن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ ملک میں مہنگائی کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے نگران حکومت کو موسم سرما سے قبل گیس کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ فیصلے کے تحت مقررہ چارجز 10 روپے سے بڑھ کر 400 روپے ہو گئے ہیں جو کہ پروٹیکٹڈ صارفین کے سلیب کے لیے ماہانہ 3 ہزار 900 فیصد اضافہ ہے، اس کے علاوہ گھریلو صارفین کے لیے بھی گیس کی قیمتوں میں 172 فیصد کا ہوش ربا اضافہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلے منتخب حکومت کے لیے چھوڑے جائیں تو بہتر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نگران وزیر پہلے ہی گھریلو صارفین کے لیے موسم سرما میں 16 گھنٹے گیس لوڈ شیڈنگ کا اعلان کر چکے ہیں، جب صارفین کو گیس ہی میسر نہیں تو قیمتوں میں یہ ہوشربا اضافہ کیوں؟

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے بعد مہنگائی میں بھی نمایاں کمی ہونی چاہیے تھی جو کہ اب تک نظر نہیں آرہی ہے، نگران حکومت عوام کے لیے مزید دشواریاں پیدا نہ کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں