جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی اپیل پر حکومت کو نوٹس جاری

اپ ڈیٹ 03 نومبر 2023
بیان ریکارڈ کرانے کے موقع پر عمران خان کے وکلا انہیں قانونی مدد فراہم کرنے کے لیے موجود تھے— فائل فوٹو: اے ایف پی
بیان ریکارڈ کرانے کے موقع پر عمران خان کے وکلا انہیں قانونی مدد فراہم کرنے کے لیے موجود تھے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی سائفر کیس کا ٹرائل کھلی عدالت میں کرنے کی اپیل پر متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کردیے جب کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے 9 مئی کے پرتشدد واقعات سے متعلق مقدمات میں اڈیالہ جیل میں عمران خان کا بیان ریکارڈ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس سمن رفعت امتیاز پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے سابق وزیراعظم کی انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی، جس میں سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف عدالت نے عمران خان کے جیل ٹرائل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج کی تعیناتی کی منظوری دی تھی۔

ابتدائی طور پر جسٹس میاں گل اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اپیل کی سماعت کی تھی، تاہم جسٹس بابر ستار نے خود کو کیس سے الگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ زیر سماعت درخواست گزار قیدی کی تحویل پر ان کا مؤقف مختلف ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے جسٹس ارباب محمد طاہر سمیت بینچ کی تشکیل نو کی لیکن جسٹس ارباب طاہر نے بھی اسی وجہ سے کیس سے خود کو الگ کر لیا۔

بعد ازاں معاملہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس سمن رفعت امتیاز پر مشتمل بینچ کے سامنے رکھا گیا۔

سماعت کے دوران بینچ نے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج کے طور پر تعینات کرنے کی سمری کا جائزہ لیا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ وفاقی کابینہ نے 27 جون 2023 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج ذوالقرنین کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے متعلق مقدمات کی سماعت کا اختیار دیا۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالت کے جج کا تقرر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت سے کیا جا سکتا تھا لیکن موجودہ تقرر وفاقی حکومت نے چیف جسٹس سے مشاورت کے بغیر کیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے مشاورت سے متعلق پوچھا جا سکتا ہے۔

بیرسٹر سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ مرکزی حکومت سے متعلق ہے، اس لیے چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت بھی ضروری تھی۔

جسٹس میاں حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہ 2023 ہے، یہ شفافیت اور کھلے پن کا دور ہے، انہوں نے جیل ٹرائل میں کیے گئے فیصلے کے نتائج پر بھی سوال اٹھایا۔

عدالت عالیہ نے درخواست پر مزید سماعت 6 نومبر تک ملتوی کر دی۔

جے آئی ٹی کا اڈیالہ جیل کا دورہ

دوسری جانب راولپنڈی پولیس کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے 9 مئی کے پرتشدد واقعات سے متعلق مقدمات میں اڈیالہ جیل میں عمران خان کا بیان ریکارڈ کیا۔

ذرائع کے مطابق گوجرانوالہ، فیصل آباد اور قصور پولیس کے حکام نے بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا۔

ذرائع کے مطابق 9 مئی کے مقدمات کے حوالے سے راولپنڈی پولیس میں درج مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کا بیان کرنے کے لیے راولپنڈی پولیس کے سپرنٹنڈنٹ انویسٹی گیشن کی سربراہی میں پولیس ٹیم سینئر سپرنٹنڈنٹ آپریشن، ایس پی پوٹھوہار اور تھانہ نیو ٹاؤن، تھانہ آر اے بازار اور تھانہ سول لائن کے تفتیشی افسران کے ہمراہ اڈیالہ جیل پہنچی۔

ذرائع نے مزید کہا کہ عمران خان کے وکلا انہیں قانونی مدد فراہم کرنے کے لیے موجود تھے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے ایف آئی آر میں درج الزامات کی تردید کی، جے آئی ٹی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد جیل سے واپس رانہ ہوئی۔

9 مئی سے متعلق مقدمات میں سب سے اہم معاملہ جی ایچ کیو راولپنڈی کے گیٹ پر حملے سے متعلق ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں