سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود قریشی پر فردِ جرم عائد کردی گئی

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2023
گزشتہ روز  خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور  شاہ محمود قریشی کے خلاف فردِ جرم عائد کرنے کے لیے آج کی تاریخ مقرر کی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز/سی این این
گزشتہ روز خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف فردِ جرم عائد کرنے کے لیے آج کی تاریخ مقرر کی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز/سی این این

سائفر کیس میں سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ و پارٹی رہنما شاہ محمود قریشی کے خلاف فردِ جرم عائد کردی گئی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کی۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی اور سائفر کیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے جب کہ اس موقع پر عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی، ان کی بہنوں کے علاوہ شاہ محمود قریشی کے اہل خانہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

سماعت کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف فردِ جرم عائد کی گئی جب کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ نے صحت جرم سے انکار کیا۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے دو صفحات پر مشتمل چارج شیٹ پڑھ کر سنائی۔

ملزمان پر فرد جرم تین مختلف الزامات کے تحت سنائی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے بطور وزیر اعظم اور شاہ محمود قریشی نے بطور وزیر خارجہ سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی۔

چارج شیٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزمان نے 27 مارچ 2022 کو سیکرٹ ڈاکومنٹ کو عوامی ریلی میں لہرایا اور اس کے مندرجات کو زیر بحث لایا گیا، ایسا کرنا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرم ہے، بطور وزیراعظم عمران خان کو سائفر رکھنے کا کوئی اختیار نہ تھا، ملزمان نے جان بوجھ کر ذاتی مفادات کے لیے سائفر کو استعمال کیا، ملزمان کے غیر قانونی اقدام سے ملکی تشخص، سیکیورٹی اور خارجہ معاملات کو نقصان پہنچا۔

چارج شیٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ بطور وزیر اعظم سائفر آپ کے قبضے اور کنٹرول میں تھا جو وزارت خارجہ کو واپس نہیں کیا گیا۔

فرد جرم سنتے ہی شاہ محمود قریشی نے صحت جرم سے انکار کیا جبکہ عمران خان نے جج سے مکالمہ کیا۔

’میں نے ملکی، غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کو بے نقاب کرکے ظلم کیا، یہ بھی شامل کریں‘

سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جج صاحب اس میں ایک اور فقرہ شامل کردیں، میں نے ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کو بے نقاب کرکے ظلم کیا، میرے جرم میں یہ بھی شامل کریں۔

انہوں نے کہا کہ بڑا ظلم کیا جو جنرل ریٹائرڈ قمر باجوہ اور ڈونلڈ کو بےنقاب کیا، باجوہ اور ڈونلڈ لو کو بچانے کے لیے تمام ڈرامہ ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سزائے موت سے ڈر نہیں لگتا، سائفر حکومت گرانے کے لیے لکھا گیا جو گرا دی گئی، ہماری حکومت کو گرا کر ہمیں ہی ملزم بنا دیا گیا، یہ کیسے ہوسکتا ہے جس کی حکومت گری ہو وہی ملزم ہو۔

عمران خان نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سائفر کے اندر سازش ہے جو چھپائی جارہی ہے، میڈیا کو بولنے کی اجازت نہیں تو فیئر ٹرائل کیسے ہوسکتا ہے، فیئر ٹرائل نہ ہوا تو اس کی ذمہ داری تمام عمر آپ پر رہے گی۔

اس پر جج نے ان سے کہا کہ آپ ایسا نہ کریں، غلط بات نہ کریں، یہ عدالت ہے، آپ کا لہجہ مناسب نہیں، آپ پہلے میری بات سن لیں۔

عمران خان کے بار بار بولنے پر عدالت نے انہیں خاموش کرا دیا، جبکہ سابق وزیر اعظم نے قانون کے تحت دستاویزات اور ویڈیو دیکھنے کے لیے سات دن کا وقت دینے کی استدعا کی۔

دو محب وطن شہریوں کو اس مقدمے میں پھنسایا جارہا ہے، شاہ محمود قریشی

شاہ محمود قریشی نے عدالت میں بیان دیا کہ سیکڑوں سائفر دیکھے لیکن یہ ان میں سے منفرد تھا، وزیر خارجہ کو دنیا بھر میں چیف ڈپلومیٹ کہا جاتا ہے، ایک مراسلہ آتا ہے جو چیف ڈپلومیٹ کی نظر سے نہیں گزارا جاتا، میری نظر سے سائفر اوجھل رکھنے کی کوئی تو وجہ ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ 8 مارچ کو فون پر اسد مجید سے بات ہوئی، اسد مجید کو بلائیے اور پوچھیے، پھر حقائق قوم کے سامنے آئیں گے، چیزوں کو خفیہ رکھ کر یک طرفہ ٹرائل نہ چلایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سائفر آئے دن آتے رہتے ہیں، سیکڑں سائفر پڑھے اور ان پر ہدایات بھی دیں، سائفر کو رکھنا کیسے ہے اور تلف کیسے کرنا ہے، سب چیزوں کی گائیڈ لائن ہوتی ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دو محب وطن شہریوں کو اس مقدمے میں پھنسایا جارہا ہے، میں بے گناہ ہوں، مجھے سزا دینا چاہتے ہیں، اگر عدالت نے تمام چیزوں کو نہیں دیکھنا تو لکھا لکھایا فیصلہ لے آئیں۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ شاہ صاحب ہم کیس کو سن رہے ہیں آپ متوازن بات کیا کریں۔

بعد ازاں خصوصی عدالت نے استغاثہ کی شہادت طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے، تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے سماعت کو کل تک کے لیے ملتوی کر دیا ہے جس میں استغاثہ کی شہادتیں عدالت میں پیش کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف فردِ جرم عائد کرنے کے لیے آج کی تاریخ مقرر کی تھی۔

واضح رہے کہ 23 اکتوبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت نے عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کردی تھی۔

25 اکتوبر کو عمران خان نے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دی تھی۔

21 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں جاری جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی انٹراکورٹ اپیل کو منظور کرتے ہوئے جیل ٹرائل کا 29 اگست کا نوٹی فکیشن غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔

بعدازاں 23 نومبر کو سائفر کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 28 نومبر کو اسلام آباد کے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) میں پیش کرنے کی ہدایت کردی تھی۔

28 نومبر کو عمران خان کو خصوصی عدالت میں پیش کرنے سے اڈیالہ جیل حکام نے سیکیورٹی خدشات کے سبب معذرت کرلی تھی، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا تھا کہ کیس کا اوپن ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہی ہوگا۔

یکم دسمبر کو وفاقی وزارت داخلہ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔

2 دسمبر کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی کارروائی اڈیالہ جیل میں دوبارہ شروع ہوئی تاہم جیل حکام نے بیشتر صحافیوں کو اوپن ٹرائل میں شرکت سے روک دیا، سماعت کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی حاضری لگائی گئی جس کے بعد سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی تھی۔

4 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو کیس کے نقول فراہم کر دیے گئے تھے، جج نے کیس کی مزید سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف 12 دسمبر کو فردِ جرم عائد کی جائے گی۔

سائفر کیس

یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔

ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی ابتدائی سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز) کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں