اسلام آباد ہائی کورٹ کا مہارنگ بلوچ سمیت 33 بلوچ مظاہرین کو رہا کرنے کا حکم

21 دسمبر 2023
لانگ مارچ کے شرکا نے  آج ہی اسلام آباد ہائی کورٹ سےدرخواست پرسماعت کی استدعا کی تھی—فائل فوٹو: اےا یف پی
لانگ مارچ کے شرکا نے آج ہی اسلام آباد ہائی کورٹ سےدرخواست پرسماعت کی استدعا کی تھی—فائل فوٹو: اےا یف پی

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے گرفتار بلوچ ہیومن ایکٹیوسٹ مہارنگ بلوچ سمیت 33 بلوچ مظاہرین اور لاننگ مارچ کے گرفتار شرکا کو پانچ، پانچ ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

لانگ مارچ کے منتظمین نے گرفتاریوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، درخواست میں سیکریٹری داخلہ،آئی جی اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد درخواست میں فریق بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ تھانہ ترنول، رمنا، شالیمار، سیکریٹریٹ، ویمن تھانہ، مارگلہ کے ایس ایچ اوز کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

لانگ مارچ منتظمین سمی بلوچ اور عبد السلام نے وکیل ایمان مزاری کے ذریعے درخواست دائر کی، لانگ مارچ کے شرکا نے آج ہی اسلام آباد ہائیکورٹ سے درخواست پر سماعت کی استدعا کی۔

درخواست کے ساتھ مرد و خواتین ، یونیورسٹی طلبہ سمیت 68 گرفتار مظاہرین کے نام بھی شامل ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ چھ دسمبر تربت سے اسلام آباد کے لئے لانگ مارچ شروع ہوا ، بلوچ جبری لاپتہ افراد کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی درخواستیں زیر التوا ہیں ، رات 86 کے قریب کے لانگ مارچ کے شرکا کو گرفتار کر لیا گیا۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ تمام احتجاجی مظاہرین کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا جائے ، لانگ مارچ کے شرکا کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب کی جائیں، لانگ مارچ کے شرکا کو ہراساں کرنے روکا جائے، احتجاج کے آئینی حق سے روکنے کے حکم کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

لانگ مارچ کے منتظمین کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج ہی سماعت کے لیے مقرر کی جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی، ایمان مزاری ایڈوکیٹ نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے پر امن بلوچ مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا، پرامن احتجاجی مظاہرین پر واٹر کینن، لاٹھی چارج کا استعمال کیا گیا۔

اس دوران عدالت نے درخواست پر اعتراضات دور کرتے ہوئے فریقین کو چار بجے تک ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا، عدالت کی جانب سے آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی کمشنر کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا ہے۔

چار بجے سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جوڈیشل مجسٹریٹ شبیر بھٹی کی عدالت میں سماعت کے دوران وفاقی پولیس نے گرفتار بلوچ ہیومن رہنما ڈاکٹر مہارنگ بلوچ سمیت33 افراد کو عدالت میں پیش کیا۔

اس موقع پر پولیس کی جانب سے ڈاکٹر مہارنگ بلوچ سمیت 8 مظاہرین کے جسمانی ریمانڈ استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔

پولیس کی جانب سے 25 مظاہرین کے شناخت پریڈ کے لیے وقت مانگا گیا، جس پر عدالت نے شناخت پریڈ کی استدعا بھی مسترد کردی اور تمام 33 مظاہرین کو ضمانت پر رہائی کے لیے پانچ، پانچ ہزار روپے مالیت کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی۔

عدالت نے کہاکہ ضمانتی مچلکے جمع کروانے تک مظاہرین کو اڈیالہ جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر رکھا جائے۔

عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں قرار دیا کہ مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی لگائی گئی دفعہ 395 اور 440 حقائق پر پورا نہیں اترتیں، مقدمے میں دیگر تمام دفعات قابل ضمانت دفعات ہیں اور گرفتار تمام ملزمان کو پانچ ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت دی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ خواتین کی قیادت میں گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت پہنچنے والے لانگ مارچ میں شرکا کے خلاف اسلام آباد پولیس نے رات گئے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے تمام بلوچ مظاہرین کو گرفتار کرلیا تھا۔

لانگ مارچ گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت کے مضافات میں پہنچا تھا تاہم اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کو نیشنل پریس کلب تک پہنچنے سے روکنے کے لیے شہر کے داخلی راستوں سمیت اہم راستوں پر ناکہ بندی کر دی تھی۔

اسلام آباد پولیس نے بلوچ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، پولیس نے آپریشن 26 نمبر چونگی اور نیشنل پریس کلب کے باہر کیا، اس دوران مظاہرین کے لگائے گئے ٹینٹ اور ساونڈ سسٹم اکھاڑ دئیے گئے۔

پولیسں نے واٹر کنین سے مظاہرین پر پانی بھی پھینکا، سیکٹر ایف سکیس میں آنسو گیس کی شیلنگ سے گھر میں موجود لوگ شدید متاثر ہوئے، بلوچ مظاہرین کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن رات کے پچھلے پہر کیا۔

کیپیٹل پولیس نے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے تمام بلوچ مظاہرین کو گرفتار کرلیا، مجموعی طور پر 226 مظاہرین کو گرفتار کرکے تھانہ آبپارہ، کوہسار، سیکرٹریٹ اور مارگلہ منتقل کردیا گیا، خواتین مظاہرین کو تھانہ وومن منتقل کر دیا گیا۔

ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین کے درمیان متعدد نقاب پوش اور ڈنڈہ بردار موجود ہیں، مظاہرین کو ہائی سیکیورٹی زون میں داخلے سے روکنے کےلیے غیر مہلک طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔

ترجمان اسلام آبادپولیس نے کہا کہ طاقت کے استعمال سے مکمل گریز کیا گیا ہے، بزرگوں، عورتوں اور بچوں سے گذارش ہے کہ پرتشدد ہجوم کا حصہ نہ بنیں اور کسی کے بہکاوے میں مت آئیں، اسلام آباد کے شہریوں کی جان اور املاک کی حفاظت اسلام آباد پولیس کی اولین ترجیح ہے۔

جاری بیان میں کہا گیا کہ کسی بھی ایمرجنسی میں پکار 15 یا آئی سی ٹی 15 ایپ پر اطلاع دیں، 26 نمبر چونگی پر مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا ہے، ایوب چوک پر بھی مظاہرین کی طرف سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا، پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا ہے۔

اسلام آباد پولیس نے خبردار کیا کہ راستہ روکنے اور سڑکیں بند کرنے والوں کے خلاف ضابطہ کے مطابق قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی، آپ سے گذارش ہے کہ کسی بھی غیر قانونی اجتماع یا پر تشدد مظاہرے کا حصہ نہ بنیں، عورتوں اور بچوں کو پر تشدد مظاہروں سے دور رکھیں کسی بھی غیر معمولی سرگرمی کی اطلاع پکار 15 یا آئی سی ٹی 15 ایپ پر دیں۔

جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ خواتین کی قیادت میں لانگ مارچ گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت کے مضافات میں پہنچا تھا تاہم اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کو نیشنل پریس کلب تک پہنچنے سے روکنے کے لیے شہر کے داخلی راستوں سمیت اہم راستوں پر ناکہ بندی کر دی تھی۔

ابتدائی طور پر پولیس نے جناح ایونیو اور پریس کلب جانے والے دیگر راستوں کی ناکہ بندی کی، بعد ازاں انہوں نے سری نگر ہائی وے کو بھی بلاک کر دیا، جس سے وفاقی دارالحکومت سے گزرنے والی مصروف سڑک پر شدید ٹریفک جام ہوگیا۔

پولیس اور انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ ناکہ بندی لانگ مارچ کو روکنے کے لیے کی گئی جوکہ 6 دسمبر کو تربت میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے اہلکاروں کے ہاتھوں ایک بلوچ نوجوان کے ’ماورائے عدالت قتل‘ کے چند روز بعد شروع ہوا۔

جناح ایونیو، ناظم الدین روڈ اور چائنہ چوک انڈر پاس سمیت پریس کلب کی طرف جانے والی سڑکوں پر پولیس کی نفری تعینات رہی۔

یہ سڑکیں عام لوگوں کے لیے بھی بند کر دی گئیں، اسی طرح پولیس نے اسلام آباد چوک اور چونگی نمبر 26 کی ناکہ بندی کی، ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ اس فیصلے کا مقصد مظاہرین کو شہر میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی قیادت میں مظاہرین سے مذاکرات بھی ناکام رہے کیونکہ بار بار کی درخواستوں کے باوجود پولیس نے ان کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا، بعدازاں مظاہرین نے اسلام آباد چوک کے قریب دھرنا دیا۔

حکام نے بتایا کہ مظاہرین سے کہا گیا تھا کہ وہ ایف-9 پارک میں احتجاج کرلیں، انتظامیہ کے اعلیٰ حکام پارک میں ان سے ملاقات کریں گے، تاہم مظاہرین نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور کہا کہ احتجاج کے لیے مقام کا فیصلہ پولیس نہیں مظاہرین کریں گے۔

دریں اثنا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ میں اے این پی کی سابق رہنما بشریٰ گوہر سمیت متعدد کارکنان کو پریس کلب کے باہر بلوچستان سے آنے والے مظاہرین سے ملاقات کے لیے انتظار کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ مظاہرین رات کے وقت موبائل کی فلیش لائٹس جلا کر سرد موسم میں نیشنل پریس کلب کے باہر سڑک پر دھرنا دے رہے ہیں، مظاہرین نے لانگ مارچ کے مطالبات کے حق میں نعرے لگائے۔

تبصرے (0) بند ہیں