اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بنی گالا کو سب جیل قرار دینے کے خلاف درخواست سماعت پر اسلام آباد انتظامیہ کے سینئر افسر کو خان ہاؤس کے دورے کا حکم دے دیا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مقدمے کی سماعت کی، بشریٰ بی بی کی جانب سے وکلا عثمان ریاض گل، شیراز رانجھا و دیگر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ چیف کمشنر آفس کی جانب سے سرکاری وکیل ملک عبد الرحمٰن عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف کمشنر آفس نے عدالت کو رپورٹ جمع کروا دی۔

عدالت نے ریمارکس دیے یہ گھر کس کا ہے اور کیا مالک مکان کی مشاورت سے یہ فیصلہ کیا گیا؟ سرکاری وکیل ملک عبد الرحمٰن نے بتایا کہ مجھے اس حوالے سے نہیں معلوم کہ مالک مکان سے اجازت لی گئی تھی یا نہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ قانون میں واضح طور پر موجود ہے کہ مالک مکان کی اجازت سے نوٹیفکیشن ہوگا۔

بعد ازاں بشری بی بی کے وکیل عثمان ریاض گل نے بتایا کہ یہ گھر عمران خان کا ہے اور بنا مشاورت کے گھر کو جیل کا درجہ دیا گیا۔

اس موقع پر عدالت نے دریافت کیا کہ کسی ملزم کو گھر پر نظر بند رکھنے یا سب جیل قرار دینے سے متعلق کوئی رولز ہیں؟

سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جیل انتظامیہ نے رپورٹ جمع کرائی ہے کہ درخواست گزار سابق خاتون اول ہے، سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر سابق خاتون اول کو اڈیالہ جیل میں نہیں رکھا گیا، اڈیالہ جیل کی درخواست پرضابطہ فوجداری کی دفعہ 45 کے تحت چیف کمشنر نے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

اس پر بشریٰ بی بی کے وکیل کا کہنا تھا کہ کسی سزا یافتہ قیدی کو کہاں رکھنا ہے کہاں نہیں، یہ انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کا اختیار ہے، درخواست گزار بشریٰ بی بی کو جب سزا سنائی گئی تو انہوں نے خود اڈیالہ جیل جاکر گرفتاری دی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا درخواست گزار کو گھر میں چہل قدمی کی اجازت ہے؟ جس پر وکیل بشریٰ بی بی نے بتایا کہ میری مؤکل کو گھر پر صرف ایک کمرہ دیا گیا ہے اور وہ اس سے باہر نہ نہیں نکل سکتیں، عدالت سے استدعا ہوگی کہ عدالت کمیشن بنائے اور کمیشن کو درخواست گزار کے حالات کو دیکھنے کے لیے بھیجا جائے، میرے موکل کو ملاقات تک کی اجازت نہیں، انہیں اپنی فیملی سے ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی جارہی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے دریافت کیا کہگھر میں نظربندی کا نوٹیفکیشن کب ہوا تھا؟ وکیل بشری بی بی نے کہا کہ 31 جنوری کو سزا سنائی اور اسی دن یہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا، میری استدعا ہوگی کہ میری مؤکل کو فیملی سے ہفتے میں ایک دفع ملاقات کی اجازت دی جائے۔

اس کے بعد عدالت نے اسلام آباد انتظامیہ کے سینئر افسر کو خان ہاؤس بنی گالا کے دورے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ 31 جنوری سے لے کر اب تک بشری بی بی سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں جیل سپریٹنڈنٹ اس کی رپورٹ جمع کروائیں۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 22 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ سابق وزیر اعظم و بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بنی گالا سب جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر اڈیالہ جیل انتظامیہ نے سابق خاتون اول کو جیل منتقل کرنے سے انکار کردیا تھا۔

قبل ازیں 13 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ سابق وزیر اعظم و بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بنی گالا سب جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 22 فروری تک جواب طلب کرلیا تھا۔

واضح رہے کہ 31 جنوری کو بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ ریفرنس میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

بعدازاں اسی روز عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی گرفتاری دینے کے لیے خود اڈیالہ جیل پہنچیں جہاں ان کو تحویل میں لے لیا گیا تھا اور بشریٰ بی بی کو بنی گالہ منتقل کرکے رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا تھا۔

6 فروری کو بشریٰ بی بی نے بنی گالہ کو سب جیل قرار دینے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

12 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ سابق وزیر اعظم و بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بنی گالا کو سب جیل قرار دینے کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوگئی تھی۔

16 فروری کو پاکستان تحریک انصاف نے بانی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی گرتی ہوئی صحت کے حوالے سے رپورٹس سامنے آنے کے بعد ان کی فوری طور پر طبی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں