سوشل میڈیا پر ادھوری پرنٹنگ والے نوٹوں کی ویڈیو وائرل ہونے پر صارفین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی جس پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے تحقیقات کا اعلان کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر ایک بینک کے عملے کی جانب سے بنائی گئی ایک ویڈیو میں ایک شخص کو دیکھا گیا ہے جو خود کو ماڈل کالونی میں واقع نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کی برانچ کا منیجر بتاتا ہے، اسے ہزار روپے کے 2 نوٹ تھامے دیکھا جا سکتا ہے جن کی ایک سائیڈ پرنٹ شدہ جبکہ دوسری سائیڈ بالکل خالی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کتنے بنڈل پہلے ہی بھیجے جا چکے ہیں، یہ ایک صارف نے واپس کیے جس سے ہمیں اس بارے میں معلوم ہوا۔

پھر وہ ایک میز پر کیمرا زوم کرتا ہے جہاں ایک اور بینک ملازم بیٹھ کر بنڈل میں کرنسی نوٹوں کا معائنہ کرتا دیکھا گیا، جیسے ہی اس نے نوٹوں کو پلٹنا شروع کیا تو چوتھے نوٹ کا پچھلا حصہ بالکل کورا نکلا۔

برانچ مینیجر نے ویڈیو میں کہا ہر پیکٹ میں اس طرح کے کم از کم 2 نوٹ موجود ہیں۔

’ڈان‘ نے اس حوالے سے مؤقف جاننے کے لیے ترجمان نیشنل بینک سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور صرف چند گھنٹوں میں ایکس، فیس بک اور انسٹاگرام پر پھیل گئی، فیس بک پر ہزاروں صارفین نے اس معاملے پر اپنی آرا اور تبصرے پیش کیے۔

’ایکس‘ پر ایک ویریفائیڈ اکاؤنٹ سے ایڈووکیٹ خالد خان لودھی نامی صارف نے مذکورہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا جب آپ بینک اور اے ٹی ایم سے نقد رقم لے رہے ہوں تو بہت محتاط رہیں، ذاتی طور پر ہر ایک نوٹ کی تصدیق اور جانچ پڑتال کریں۔

فیس بک پر ایک پبلک اکاؤنٹ ’کراچی سے‘ کی جانب سے پوسٹ کی گئی مذکورہ ویڈیو کے نیچے تبصرہ کرتے ہوئے ایک صرف نے لکھا کہ یہ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کراچی کے پرنٹنگ عملے کی لاپرواہی ہے اور اسٹیٹ بینک بھی اس میں برابر کا ذمہ دار ہے۔

فیس بک صارف فیصل بٹ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ نئے بنڈل ہیں تو یہ اسٹیٹ بینک کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔

ایک اور تبصرے میں صارف نے لکھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس کے خلاف سنجیدہ کارروائی کرنی چاہیے۔

عبداللہ سومرو نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو پوسٹ کرنے کے بجائے اپنے بینک کے کیش ہاؤس کو براہ راست رپورٹ کریں۔

رابطہ کرنے پر اسٹیٹ بینک کے چیف ترجمان نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ حقائق پر مبنی ہے یا نہیں، یہ ایک انوکھا واقعہ ہے اور ایسا خال خال ہی ہوتا ہے، اگر یہ سچ ہے بھی تو یہ بینک کی صرف ایک برانچ کا مسئلہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں