قابلِ اعتراض مواد شائع کرنے پر 12 لاکھ 50 ہزار یو آر ایلز کو بلاک کیا، پی ٹی اے

17 اپريل 2024
12 لاکھ 53 ہزار 522 یو آر ایلز میں سے 9 لاکھ 88 ہزار 659 کو غیراخلاقی مواد پر بلاک کیا گیا—تصویر: کینوا
12 لاکھ 53 ہزار 522 یو آر ایلز میں سے 9 لاکھ 88 ہزار 659 کو غیراخلاقی مواد پر بلاک کیا گیا—تصویر: کینوا

پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا کہ قابلِ اعتراض مواد شائع کرنے پر 12 لاکھ 50 ہزار سے زائد ویب ایڈریس (یو آر ایلز) کو بلاک کردیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی اے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ ہونے والے ’قابلِ اعتراض، غیراخلاقی اور غیر قانونی‘ مواد کے خلاف درخواست میں اپنا جواب عدالت کو جمع کروایا۔

پی ٹی اے نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا کہ بلاک ہونے والے 12 لاکھ 53 ہزار 522 ویب ایڈریس میں سے 9 لاکھ 88 ہزار 659 کو غیراخلاقی مواد پر بلاک کیا گیا، 90 ہزار 980 کو اسلام کے خلاف مواد، 84 ہزار 130 کو قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف مواد، 52 ہزار 787 ویب سائٹس کو فرقہ وارانہ اور نفرت کا پرچار کرنے، 10 ہزار 363 کو ہتک عزت اور نقالی، 10 ہزار 252 کو پراکسی، 9 ہزار 366 کو دیگر وجوہات اور 6 ہزار 985 ویب سائٹس کو توہین عدالت مواد شائع کرنے پر بلاک کیا گیا ہے۔

تفصیلات بتاتے ہوئے پی ٹی اے نے کہا کہ بلاک شدہ مواد میں ایک لاکھ 39 ہزار 415 فیس بُک کے لنکس تھے، 98 ہزار 597 ٹک ٹاک، 50 ہزار 975 یوٹیوب، 18 ہزار 123 انسٹاگرام، 5 ہزار 184 اسنیک ویڈیو، 4 ہزار 285 بیگو اور لینکی، ڈیلی موشن کے 550 جبکہ 8 لاکھ 87 ہزار 495 دیگر پلیٹ فارمز کے لنکس شامل ہیں۔

ریگولیٹر نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا کہ ان کے پاس تقریباً 13 لاکھ 40 ہزار ویب ایڈریسز کا ریکارڈ موجود ہے جن میں سے 71 ہزار 722 سے زائد یو آر ایلز اب بھی قابل رسائی ہیں جبکہ 16 ہزار 122 یو آر ایلز کو بلاک کرنے کی درخواستیں مسترد کردی گئیں۔

پی ٹی اے نے اپنا جواب اس وقت جمع کروایا جب یوٹیوب کے کچھ کونٹینٹ کریئٹرز کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں اتھارٹی کو مدعی بنایا گیا جس میں استدعا کی تھی کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر قابلِ اعتراض، غیر اخلاقی اور غیر قانونی مواد اپ لوڈ کیا جارہا ہے۔

چیف جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے گزشتہ روز درخواست کی دوبارہ سماعت شروع کی اور درخواست گزار کے وکیل کو پی ٹی اے کے جواب کی ایک کاپی فراہم کی گئی۔

زیرِبحث درخواست کے حوالے سے پی ٹی اے نے زور دے کر کہا کہ وہ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے سیکشن 37 (1) کے تحت انسٹاگرام اور یوٹیوب یو آر ایلز کو بلاک کرچکی ہے۔

’غیر قانونی آن لائن مواد‘ کے عنوان سے مذکورہ سیکشن پی ٹی اے کو اختیار دیتا ہے کہ ’اگر وہ اسلام کی سالمیت، ملکی سلامتی کے مفاد دفاع، امن عامہ، اخلاقیات، توہین عدالت یا اس ایکٹ کے تحت کسی جرم پر اکسانے کے حوالے سے اگر ضروری سمجھیں تو وہ کسی لنک تک رسائی کو ہٹانے یا یو آرایل کو بلاک کرنے کی ہدایات جاری کرسکتا ہے‘۔

پی ٹی اے نے اس بنیاد پر درخواست کی سماعت جاری رکھنے پر بھی سوال اٹھایا کہ درخواست گزاروں کے پاس اسے دائر کرنے کا اب کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپنے خدشات کو دور کرنے کے لیے پی ٹی اے سے رجوع نہیں کیا، پی ٹی اے نے دعویٰ کیا کہ اتھارٹی نے درخواست گزاروں سے قابلِ اعتراض مواد کے عین مطابق یو آر ایلز شیئر کرنے کی بھی درخواست کی لیکن انہوں نے فراہم نہیں کیں۔

بعدازاں ڈپٹی اٹارنی جنرل کی جانب سے زونل ڈائریکٹرز اور ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر کے مؤقف شامل کرنے کے لیے مزید وقت طلب کیا گیا جسے عدالت نے قبول کرتے ہوئے سماعت 15 مئی تک ملتوی کردی۔

اس سے قبل ایک سماعت میں سندھ ہائی کورٹ نے پی ٹی اے کو ہدایت کی تھی کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر قابلِ اعتراض مواد شائع ہونے سے روکنے اور اسے ہٹانے کے لیے متعلقہ قوانین اور قواعد نافذ کرے۔

درخواست گزاروں کے وکیل عثمان فاروق نے استدلال کیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کو الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 اور غیر قانونی آن لائن مواد کو ہٹانے اور بلاک کرنے کے قوانین 2021 کے تحت غیر قانونی مواد ہٹانے اور بلاک کرنے جیسی مناسب کارروائیوں کا اختیار حاصل ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اتھارٹی فوری طور پر ان کے خلاف کارروائی نہیں کررہی لہٰذا سندھ ہائی کورٹ قابلِ اعتراض مواد ہٹانے کے لیے ہدایات جاری کرے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں