• KHI: Asr 5:01pm Maghrib 6:44pm
  • LHR: Asr 4:31pm Maghrib 6:15pm
  • ISB: Asr 4:35pm Maghrib 6:20pm
  • KHI: Asr 5:01pm Maghrib 6:44pm
  • LHR: Asr 4:31pm Maghrib 6:15pm
  • ISB: Asr 4:35pm Maghrib 6:20pm

عالمی طاقتیں اور پاکستان کے دشمن ہماری نااتفاقی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، بلاول بھٹو

شائع March 13, 2025
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عالمی طاقتیں، دہشت گرد اور پاکستان کے دشمن ہماری نااتفاقی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، مذہب اور آزادی کےنام پر دہشت گردی کرنے والے اپنے حقوق کے لیے نہیں خون خرابے کے لیے لڑ رہے ہیں۔

قومی اسمبلی میں سانحہ جعفر ایکسپریس کے حوالے سے بحث میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے، دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان اور پیپلزپارٹی نے بہت نقصان اٹھایا، مجھے وزیراعظم کے گھر سےاغوا کرنےکی کوشش کی گئی، اس ناکام واقعے کے بعد شہید بینظیر بھٹو نے مجھے حفاظت کے لیے لندن میں رکھا تھا، دہشت گردی کی وجہ سے بینظیر بھٹو شہید ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان مین دہشت گردی کا مسئلہ نیا نہیں ہے، پاکستانی قوم نے مل کر ملک کو دہشت گردی سے پاک کردیا تھا، پاکستان کے ہر شہری نے اس جنگ میں اپنا حصہ ڈال کر دہشت گردی سے پاک کیا، عام شہری سے لے کر پولیس اور فوج، ایسا کوئی نہیں جس نے اس جنگ میں قربانی نہ دی ہو، یہ ایوان جب متحد تھا تو تحریک انصاف کی الگ سیاست تھی، اے پی ایس کے واقعے پر ہم نے سیاست کو ایک جانب رکھ کر نیشنل ایکشن پلان کو مانا، ہم نے ملک سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی تھی۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مگر افسوس ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی کامیابی کھو بیٹھے ہیں، دہشت گردی کی آگ پھر سے جل اٹھی ہے، ہم ماضی سے زیادہ خطرناک دور سے گزر رہے ہیں، ہم دہشت گردی کے خلاف ماضی کی طرح سیاسی اتفاق رائے نہیں بناسکے ہیں، ہماری کمزوریوں کی وجہ جو بھی ہو، دہشت گرد، عالمی طاقتیں اور پاکستان کے دشمن ہماری نااتفاقی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد پاکستان کے مظلوم عوام کو نشانے پر لے کر خیبر پختونخوا سے بلوچستان تک وہ ایک کے بعد ایک دہشت گردی کرتے آرہے ہیں اور دہشت گردی کا ہر واقعہ پچھلے واقعے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

’دہشت گردوں کا کوئی نظریہ، کوئی سیاست نہیں ہوتی‘

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی نظریہ، کوئی سیاست نہیں ہوتی، مذہبی دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ان تمام تنظیموں کا نام جو بھی ہو ان کا مقصد دہشت پھیلانا اور لوگوں کو قتل کرنے ہوتا ہے، نہ تو مذہبی دہشت گرد اسلامی ریاست چاہتا ہے نہ ہی نام نہاد بلوچ دہشت گرد اپنی آزادی اور حقوق چاہتے ہیں، وہ خون خرابہ کرتے ہیں اور پاکستانی عوام کی ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں، اور جو بین الاقوامی قوتیں انہیں مالی اور لاجسٹکل سپورٹ فراہم کر رہی ہیں ان کے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ یہ دہشت گرد پاکستان کے عام شہری کو قتل کرکے چین کو کیوں للکارتے ہیں؟ ٹرین میں شہید ہونے والے بے گناہوں کا خطے کی سیاست سے کیا تعلق تھا؟ پاکستان میں جاری نظام سے ان کا کیا تعلق تھا؟ یہ بے گناہ لوگ تھے جنہیں دہشت گردوں نے شہید کیا ہے اور اب ان کی لاشوں پر اپنا بین الاقوامی ایجنڈا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کو برا کہنا اور مذمت کرنا بہت آسان ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بطور سیاسی جماعت ہمارا کیا کردار ہو سکتا ہے؟ اس ایک نکتے پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ہم باقی ایجنڈوں پر سیاست اور پوائنٹ اسکورنگ کرتے رہیں، مگر پارلیمان میں موجود تمام جماعتیں یہ طے کرلیں کہ پاراچنار سے لے کر بولان تک پاکستان کے عوام کو شہید اور ان کے خون سے ہولی کھیلنے والے درندے ہمارے دشمن ہیں، جو کل کے واقعے میں ملوث تھے اور جو کسی بھی دہشت گردی میں ملوث ہوگا وہ ہمارا دشمن ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر تنقید ہونی چاہیے مگر دہشت گردی کے مسئلے پر چاہے وہ وزیراعلیٰ بلوچستان ہوں یا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، اگر وہ ہم سے کوئی مدد چاہتے ہیں تو چاہے وہ حکومت ہو یا اس کے اتحادی، غیر مشروط تعاون کی پیشکش کرنی چاہیے، اگر میرے وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت میں کوئی کمی بیشی ہے تو آپ ہمیں بتائیں، ہمارا ہاتھ تھامیں تاکہ ہم مل کر ان کا مقابلہ کرسکیں۔

بلاول بھٹو کی وزیراعظم کو نیشنل ایکشن پلان ٹو بنانے کی تجویز

چیئرمین پیپلز پارٹی نے ’نیشنل ایکشن پلان ٹو‘ بنانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پہلی بار نیشنل ایکشن پلان بنایا تو نواز شریف وزیراعظم تھے، کوئی وجہ نہیں ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نیشنل ایکشن پلان ٹو نہ بناسکیں، ہم مانتے ہیں اس ایکشن پلان کا صرف متحرک عنصر نہیں ہے، جب پیپلزپارٹی نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا تو ہم نے مذاکرات، روک تھام اور ترقی کی پالیسی اپنائی، چاہے بلوچستان ہو یا پختونخوا وہاں کے عوام کے جائز قانونی مطالبات کو ہم نے این ایف سی ایوارڈ اور 18ویں ترمیم کی صورت میں پورا کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مگر جو لوگ انسانیت کو نہیں مانتے، جنہوں نے ہتھیار اٹھاکر پورے ملک میں دہشت گردی پھیلائی ہم نے ان کا جنوبی و شمالی وزیرستان، بلوچستان، کراچی اور فاٹا میں مقابلہ کیا، اگر ہم پہلے شکست دے سکتے ہیں تو دوبارہ بھی شکست دے سکتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام اپنے حقوق مانگ رہے ہیں، وہ اپنے وسائل پر آئینی حصے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اپنا صوبہ اپنی مرضی سے چلانے کا حق مانگ رہے ہیں، ریکوڈک سے اپنا حصہ مانگ رہے ہیں، وفاق کے ساتھ جو مسائل ہیں وہ چلتے آرہے ہیں مگر ان کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں جینے کا حق دیں، انہیں دہشت گردوں سے تحفظ دیں۔

’عالمی قوتیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے متحد ہیں‘

انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آپریشنز تو کرنے ہیں مگر ہمارے ملک کے اداروں کو یقینی بنانا چاہیے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز میں کولیٹرل ڈیمیج نہ ہو، جو دہشت گرد نہ ہو انہیں نقصان نہ پہنچے تاکہ دہش گرد تنظیمیں ان نقصانات پر سیاست کرکے اپنا مقصد آگے نہ بڑھاسکیں، اگر ہم نے دہشت گردی کے مسئلے پر اتفاق رائے پیدا نہ کیا اور اس مسئلے کا مقابلہ نہ کیا تو بطور سابق وزیر خارجہ میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو عالمی قوتیں پاکستان اور اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں وہ متحد ہیں اور اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہی ہیں۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم نے افغانستان میں غلطیاں کی ہیں اور وہاں کے دہشت گرد مل کر آزادی کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، جو آگ بلوچستان میں لگی ہے وہ پاکستان کے چاروں صوبوں، پھر اس خطے اور پھر پوری دنیا میں پھیلے گی، اس واقعے کی مذمت میں ہم ساتھ ہیں مگر میری درخواست ہے کہ ردعمل میں بھی ہمیں ساتھ ہونا چاہیے اور امید ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کاش صدر زرداری کی تقریر کو بھی اسی عزت و احترام کے ساتھ سنا جانا چاہیے تھا جس طرح اس ایوان نے قائد حزب اختلاف کی تقریر سنی تھی، صدر زرداری کی تقریر کوئی عام تقریر نہیں تھی، صدر کی تقریر نفرت اور تقسیم کی تقریر نہیں تھی وہ اتحاد اور اتفاق رائے کی تقریر تھی، صدر نے اپنی تقریر میں اپیل کی کہ سیاست کا مطلب کچھ لینے اور دینے کا نام ہے اور لین دین کے لیے بہترین جگہ قومی اسمبلی ہے۔

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ صدر زرداری نے تقریر میں معیشت سے لے کر خارجہ پالیسی کا احاطہ کیا، پانی کی تقسیم، بین الاقوامی مسائل،کشمیر کے مسئلے پربات کی، صدر نے مہنگائی میں کمی پر حکومت کی تعریف کی، دہشت گردی سے ایک دن پہلے صدر نے اتحاد کی بات کی مگر افسوس جن سے بات کرنی ہے وہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

بلاول کی قیدی نمبر 804 کی رہائی کے مطالبے پر تحریک انصاف کو سنجیدہ تجویز

انہوں نے کہا کہ صدر زرداری نے وفاق کا نمائندہ ہونے کے نئی نہروں کی مخالفت کی اور اتفاق رائے پر زور دیا، صدر نے کہا کہ مہنگائی کم ہورہی ہے، دوسری طرف سے آواز آئی قیدی نمبر 804 کو رہا کرو، صدر کہیں ہمیں مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے، وہاں سے آواز آتی تھی قیدی نمبر 804 کو رہا کرو، صدر کہیں ہم فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، وہاں سے آواز آئی قیدی نمبر 804 کو رہا کرو، صدر نے کینال منصوبے پر اتفاق رائے کی بات کی تو بھی ان کا نعرہ تھا کہ قیدی نمبر 804 کو رہا کرو۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے قائد کو رہا کروانے کا جذبہ ہونا چاہیے مگر انہیں ماننا پڑے گا کہ اس ملک میں دوسرے بھی لوگ ہیں، ہم بھی یہاں جیتے ہیں اور ہمارے ووٹر اور کارکن کی کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ آپ اپنے لیڈر کو قیدی نمبر 804 کہیں یا کچھ کہیں، ہم خیبرپختونخوا حکومت سے صرف اتنا کہتے ہیں کہ انہیں ماننا پڑے گا کہ بطور صوبائی حکومت قیدی 804 کو رہا کرنے کے علاوہ بھی کچھ ذمے داریاں ہیں، میری انہیں سنجیدہ تجویز ہے کہ قیدی نمبر 804 کی رہائی کے مطالبے کے علاوہ کسی اور معاملے پر بھی ہم پر تنقید کیا کریں۔

انہوں نے تحریک انصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قیدی نمبر 804 کی رہائی کے مطالبے کے علاوہ بیروزگاری پر بات کرلیں، دہشت گردی کےخلاف کوئی پالیسی تو بنادیں، قبائلی علاقوں سے پشاور تک کوئی ترقیاتی منصوبہ تو شروع کردیں۔

بلاول بھٹو نے حکومتی اور اپوزیشن بینچز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں لوگوں اور اسی پارلیمنٹ میں وہ صلاحیت ہے کہ ہم سب مل کر ان تمام مسائل اور خاص کر دہشت گردی کا مقابلہ کرسکتے ہیں، ہم اپنی سیاست کرتے رہیں مگر قومی معاملات پر ہم سب کو اپنی سیاست کو ایک طرف رکھ کر اتحاد قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم ملکی مسائل اور عالمی سازشوں کا مقابلہ کرسکیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 مارچ 2025
کارٹون : 20 مارچ 2025