ہاروی وائنسٹن کے خلاف ’ریپ‘ مقدمے کا دوبارہ آغاز
اداکاراؤں و دیگر خواتین سے ریپ کے الزام میں 23 سال کی سزا پانے والے ہاروی وائنسٹن کے خلاف ’ریپ‘ کیس کے مقدمے کے دوبارہ ٹرائل کا آغاز ہوگیا۔
خبر رساں ادارے ’ایجنسی فرانس پریس‘ (اے ایف پی) کے مطابق ہاروی وائنسٹن کے خلاف نیویارک کی اپیل کورٹ میں دوبارہ باضابطہ ٹرائل آئندہ چند دن میں ہونے کی توقع ہے، 15 اپریل سے عدالت نے مقدمے کی سماعت کرنے والی جیوری کا انتخاب کرنا شروع کردیا۔
جیوری کے انتخاب کا عمل اگلے پانچ دن تک مکمل ہوجائے گا، جس کے بعد ہاروی وائنسٹن کے خلاف باضابطہ طور پر ٹرائل کا دوبارہ آغاز ہوگا۔
عدالت کی جانب سے مقدمے کی سماعت کے لیے 12 ججز سمیت مجموعی طور پر 18 جیوری ارکان کا انتخاب کیا جائے گا، جس کے بعد ہاروی وائنسٹن کے خلاف دوبارہ ٹرائل شروع ہوگا۔
نیویارک کی اپیل کورٹ نے مئی 2024 میں اعلان کیا تھا کہ ہاروی وائنسٹن کے خلاف 23 سال قید کی سزا کے ریپ کیس کا دوبارہ ٹرائل ہوگا۔
ہاروی وائنسٹن کے خلاف ریپ ٹرائل کے دوبارہ آغاز کے اعلان سے قبل نیویارک کی اپیل کورٹ نے اپریل 2024 میں انہیں دی جانے والی 23 سال قید کی سزا کاالعدم قرار دی تھی۔
ہاروی وائنسٹن مارچ کو 2020 میں نیویارک کی ایک عدالت نے جیسیکا من سے ریپ کے الزام میں 23 سال قید کی سزا سنائی تھی، جس کے خلاف انہوں نے اپیلیں دائر کی تھیں۔
سزا سنائے جانے کے چار سال بعد عدالت نے ہاروی وائنسٹن کو دی گئی سزا کاالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں کمزور شواہد پر سزا سنائی گئی اور گواہوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات ہاروی پر عائد الزامات کا حصہ ہی نہیں تھے۔
ہاروی وائنسٹن کی 23 سال کی سزا کاالعدم قرار دیے جانے کے باوجود وہ جیل میں ہیں، کیوں کہ انہیں ایک اور ریپ کیس میں 16 سال قید کی سزا ملی ہوئی ہے، اس لیے وہ دوبارہ ٹرائل ہونے کے باوجود جیل میں ہیں۔
اسی طرح اگر دوبارہ ٹرائل میں وہ بے قصور ہوتے ہیں اور سزا انہیں مکمل طور پر پہلے کیس سے آزاد کردیتی ہے، تو بھی وہ 16 سال قید کے کیس میں جیل میں ہی رہیں گے۔
دوبارہ ٹرائل کے موقع پر ہاروی وائنسٹن کے خلاف پہلے الزامات لگانے والی خواتین و اداکارائیں بھی دوبارہ عدالت میں گواہی دیں گی۔
ہاروی وائنسٹن پر سب سے پہلے اکتوبر 2017 میں خواتین نے ریپ اور جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تھے اور ان پر مجموعی طور پر 80 سے زائد خواتین نے الزامات لگا رکھے ہیں، جن کی پروڈیوسر نے ہمیشہ تردید کی۔
ان پر الزامات سامنے آنے کے بعد ہی دنیا بھر میں ’می ٹو مہم‘ کا آغاز ہوا تھا اور دیگر ہولی وڈ شخصیات کے خلاف بھی اسی طرح کے ریپ مقدمات دائر کیے گئے اور متعدد کو سزائیں بھی ہوئیں۔