• KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:09pm
  • LHR: Zuhr 11:59am Asr 4:51pm
  • ISB: Zuhr 12:04pm Asr 5:00pm
  • KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:09pm
  • LHR: Zuhr 11:59am Asr 4:51pm
  • ISB: Zuhr 12:04pm Asr 5:00pm

’جنگ کے نفسیاتی اثرات زندگی بھر لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں‘

شائع May 10, 2025

80 سال قبل 8 مئی کو جرمنی نے اتحادی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ رواں ہفتے برطانوی بادشاہ چارلس نے واقعے کی 4 روزہ یادگاری تقریبات کا آغاز کیا۔ یہ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ حالیہ دنوں جنوبی ایشیا ایک بڑی جنگ کے دہانے پر ہے۔

ہمارے حلقوں میں موجود چند لوگ نہ چاہ کر بھی مئی کے انہیں دنوں میں تیسری جنگ عظیم چِھڑنے کے امکان کو ظاہر کررہے ہیں کہ جن دنوں دوسری جنگِ عظیم اختتام کو پہنچی تھی۔

جنگ کے حوالے سے کچھ مصدقہ اور غیر مصدقہ معلومات میسیجز، انسٹاگرام ریلز، ٹی وی پروگرامز، ٹک ٹاک وغیرہ پر زیرِ گردش ہیں۔ اسکول کھلے رہے، بند ہوئے، امتحانات معمول کے مطابق جاری رہے، امتحانات ملتوی ہوئے، دفاتر میں کام کے اوقات متاثر ہورہے ہیں، بزنس ٹرپس منسوخ ہورہے ہیں، خوراک کے بحران کے حوالے سے خدشات پیدا ہورہے ہیں اور اس سمیت دیگر بہت سے عناصر عوام میں الجھن کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ اس نے اپنے ڈیپ فریزر میں 2 ماہ کا راشن جمع کرلیا ہے اور وہ مزید راشن جمع کررہی ہے۔

راشن جمع کرنا مجھے انتہائی قدم لگا۔ تاہم غیریقینی حالات میں لوگوں کا ردعمل بھی مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔ جنگی صورت حال میں عام لوگوں کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ ان کی حکومت کیا فیصلہ کرنے کا انتخاب کرتی ہے۔ مگر حکومتوں اور عسکری افواج کے فیصلوں کے اثرات انہیں عوام کو سب سے زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔

یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہر شے میں پختگی و سچائی ڈھونڈتا ہے لیکن جنگ تو غیریقینی اور غیرمتوقع حالات کا نام ہے جو اسے چینلج بناتا ہے۔ فی الوقت فیک نیوز سمیت بہت سی معلومات زیرِگردش ہیں جو عوام میں بے بسی کے احساسات کو جنم دے رہی ہیں۔ خوراک کا ذخیرہ جمع کرنا ایسا ہے کہ جیسے لوگ خوفناک حالات کے لیے خود کو تیار کررہے ہیں کیونکہ انہیں کچھ اندازہ نہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ عوام کو لگتا ہے کہ انہیں کچھ کرنا چاہیے اور بدتر حالات کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ تیاری کرکے انہیں گمان ہوتا ہے کہ وہ کسی طور محفوظ ہیں۔

جنگ انسانی زندگی میں خلل کا باعث بنتی ہے۔ مسلسل بحران میں رہنے کی صورت حال سے ایسا محسوس ہوگا کہ جیسے ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں کہ جہاں کچھ بھی مصدقہ نہیں۔ دوسری جنگِ عظیم سے گزرنے والے لوگ اپنے تجربات سے بتاتے ہیں کہ مکمل تباہی میں انہوں نے اپنے زندگی کو معمول پر لانے کے لیے کتنی کوششیں کیں۔ اسکولز بند تھے لیکن انہوں نے اپنے بچوں کو گھروں پر تعلیم دی۔ جب چائے اور کافی دستیاب نہیں تھی تو انہوں نے چاول جلائے اور اسے گرم پانی میں ڈال کر پیا تاکہ صبح کا آغاز معمول کے مطابق گرم مشروب سے ہو۔ ان چھوٹی چھوٹی عادات کو جاری رکھ کر انہوں نے خود کو باہمت محسوس کیا اور مشکل وقت کا مقابلہ کیا۔

تاہم بقا صرف جسمانی طور پر محفوظ رہنے کا نام نہیں۔ جنگ کا ٹراما صرف زندہ رہنے یا مرنے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق ان چھوٹے چھوٹے نفسیاتی ٹراماز سے بھی ہے جن کا سامنا کسی بڑے تنازعے کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کے نوجوانوں کو کرنا پڑے گا۔

22 اپریل کو پہلگام حملے کے بعد سے لوگوں کو اپنے کام اور پڑھائی میں توجہ دینے میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ وہ معمولات زندگی پر توجہ دینے سے قاصر ہیں جوکہ ہمارے لیے انتہائی اہم ہیں۔ جنگ کا خوف سروں پر منڈلا رہا ہے لیکن لوگوں کو اپنے معمولات زندگی بھی جاری رکھنے ہیں۔ اسائنمنٹس مکمل کرنے ہیں، امتحانات دینے ہیں، بچوں کا پیٹ پالنا ہے اور دیگر روزمرہ کے کام کرنے ہیں۔ تاہم یہ تناؤ لوگوں کی نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے اور جب جنگ ختم ہوتی ہے اور جو زندہ بچ جاتے ہیں، انہیں نفسیاتی کرب سے گزرنا پڑتا ہے جہاں زندگی بھر ٹراماز ان کے ساتھ رہتے ہیں۔

موجودہ حالات میں دونوں فریقین کی جانب سے حملوں اور جوابی حملوں کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ ڈرونز کی برسات ہورہی ہے۔ دونوں ممالک فخر سے اپنی قوت اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس وقت جنگ کے خلاف بات کیے جانے کو حب الوطنی کے خلاف سمجھا جائے گا۔ تو بہت کم لوگ انا، بمباری اور بڑے پیمانے پر اہداف کو نشانہ بنانے کے بےمنطق بپا شور میں اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اگر حالات مزید بگڑ گئے اور جوہری ہتھیار کے استعمال تک تنازع پہنچا تو اس کا نتیجہ انسانیت کی مکمل تباہی ہوگا۔

فلسطینی شاعر محمود درویش کے بقول، لیڈرز اعلانِ جنگ کرتے ہیں اور پھر مصافحہ کرلیتے ہیں۔ جو دشمنی شروع ہوگی، وہ بلآخر ختم ہوجائے گی۔ نقصان اس ماں کا ہوگا جو اپنے مردہ بیٹے، اس بیٹی کا ہوگا جو اپنے والد یا اس بیوی کا ہوگا جو اپنے شوہر کے گھر لوٹنے کی منتظر ہوگی۔ جو لوگ اپنے قریبی لوگوں کو کھو دیتے ہیں ان کے لیے جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی، وہ زندگی بھر جنگ کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 مئی 2025
کارٹون : 19 مئی 2025