ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد خام تیل کی قیمتوں میں 7 فیصد سے زائد کا اضافہ
ایران پر اسرائیل کے بڑے حملے کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں 7 فیصد سے زائد کا اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ ایران کی جانب سے جوابی کارروائی کے خدشات نے عالمی منڈی میں تیل کی فراہمی متاثر ہونے کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق برینٹ خام تیل کی قیمت میں 5.1 ڈالر (تقریباً 7.4 فیصد) کا اضافہ ہوا ہے، جو 74.46 ڈالر فی بیرل پر پہنچ گئی جبکہ دن کے دوران یہ قیمت 78.50 ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جو کہ 27 جنوری کے بعد بلند ترین سطح ہے۔
امریکی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (ڈبلیو ٹی آئی) خام تیل کی قیمت میں بھی 5.1 ڈالر (تقریباً 7.5 فیصد) کا اضافہ ہوا اور یہ 73.15 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی ہے، جبکہ بلند ترین سطح 77.62 ڈالر ریکارڈ کی گئی، جو کہ 21 جنوری کے بعد کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔
جمعے کو تیل کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ 2022 کے بعد ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے، جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا اور توانائی کی قیمتوں میں شدید اضافہ ہوا تھا۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ اُس نے ایران کے جوہری تنصیبات، بیلسٹک میزائل فیکٹریوں اور فوجی کمانڈروں کو نشانہ بنایا ہے تاکہ تہران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکا جا سکے۔
ایران کی جوہری توانائی تنظیم کے مطابق نطنز میں موجود ایک جوہری تنصیب کو نقصان پہنچا تاہم وہاں سے کسی بھی تابکار یا کیمیائی آلودگی کے اخراج کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ایس ای بی کے تجزیہ کار اولے ہوالبائے کے مطابق موجودہ صورتحال میں سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ آیا یہ پیش رفت آبنائے ہرمز کو متاثر کرے گی یا نہیں، یہ وہ اہم بحری راستہ ہے جہاں سے دنیا کا تقریباً 20 فیصد تیل (یعنی 18-19 ملین بیرل روزانہ) گزرتا ہے، فی الحال تیل کی ترسیل متاثر نہیں ہوئی ہے۔
جے پی مورگن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بدترین صورتحال میں آبنائے ہرمز بند ہو جاتی ہے، یا خطے کے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی جانب سے جوابی کارروائی ہوتی ہے، تو تیل کی قیمتیں 120 سے 130 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہیں، جو موجودہ اندازوں سے تقریباً 2 گنا زیاد ہ ہے۔
’ایرانی پیداوار میں کوئی کمی نہیں ہوئی‘
بارکلیز کے تجزیہ کار امرپریت سنگھ نے نوٹ لکھا ہے کہ حالیہ 10 ڈالر فی بیرل اضافہ ابھی صرف اندیشوں کا نتیجہ ہے، اور ایرانی تیل کی پیداوار میں کوئی واضح کمی یا ترسیل میں رکاوٹ تاحال واقع نہیں ہوئی۔
رِسٹاڈ کے تجزیہ کار یانیو شاہ نے کہا کہ ’اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا تیل کی قیمتوں میں یہ اضافہ ہفتے کے آخر سے آگے جا سکے گا یا نہیں، ہمارے اندازے بتاتے ہیں کہ مکمل جنگ کا امکان کم ہے اور تیل کی قیمتوں میں یہ تیزی شاید مزاحمت کا سامنا کرے گی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’بنیادی طور پر دیکھا جائے تو تقریباً تمام ایرانی برآمدات چین کو جا رہی ہیں لہٰذا سب سے زیادہ خطرے میں چینی رعایتی خریداری ہوگی، اوپیک پلس کے پاس اضافی صلاحیت موجود ہے جو مارکیٹ کو استحکام فراہم کر سکتی ہے‘۔
اسٹاک مارکیٹوں میں گراوٹ
دوسری جانب اسٹاک مارکیٹوں میں گراوٹ دیکھی گئی اور سرمایہ کار سونے اور سوئس فرانک جیسے محفوظ اثاثوں کی طرف متوجہ ہوئے۔
آر بی سی کیپٹل کی تجزیہ کار حلیمہ کرافٹ نے نوٹ میں لکھاکہ ’اہم سوال یہ ہے کہ آیا ایران کی جوابی کارروائی صرف اسرائیل تک محدود رہے گی یا ایرانی قیادت اس رات کی کارروائی کی قیمت کو بین الاقوامی سطح پر منتقل کرنے کی کوشش کرے گی، جیسا کہ خطے بھر میں اڈوں اور اہم اقتصادی انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنانا‘۔