’سلگتے بلوچستان کی آگ ماضی میں دھیمی تو ضرور ہوئی لیکن کبھی بجھی نہیں‘
’گرم پانیوں تک رسائی کے لیے ماسکو اور کابل ان 50 لاکھ قبائلی بلوچوں کو اکھاڑے میں اتار دینا چاہتے ہیں جو پاکستان، مشرقی ایران اور افغانستان کے دشوار گزار صحرائی علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ علاقہ 750 میل رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور بحیرہ عرب سے شروع ہوکر خلیج عمان پر ختم ہوتا ہے۔ بلوچ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ یہ ایک پُرعزم چھاپہ مار فوج ہے جو اس علاقے میں خودمختار آزاد عوامی جمہوریہ بلوچستان کا اعلان کرنا چاہتی ہے‘۔
ممتاز امریکی محقق سلیگ ہیریسن کی کم و بیش 45 سال پہلے لکھی یہ تحریر جنوری 1980ء میں ٹائم میگزین میں شائع ہوئی تھی۔ سلیگ ہیریسن کی 1981ء میں شائع ہونے والی کتاب In Afghanistan Shadow Baloch Nationalism And Soviet Temptation کو اس خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کی روشنی میں معروف اصطلاح میں بائبل کا درجہ حاصل ہے۔
4 دہائی قبل لکھی جانے والی اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد دریاؤں کے راستے سے پانی ہی نہیں خون کی ندیاں بہی ہیں۔ نہ سپر پاور روس رہا نہ کابل میں ماسکو نواز حکومت، نہ شاہ کا ایران اور نہ ہی بلوچ مزاحمتی تحریک کے سرکردہ قوم پرست رہنما میر غوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور نواب اکبر خان بگٹی رہے جو پہاڑوں سے مسلح جدوجہد بھی کرتے تھے اور ساتھ ہی مذاکرات کا دروازہ بھی کھلا رکھتے تھے۔

امریکی محققین کی دورس نگاہ دیکھیے کہ 1970ء کی دہائی میں بلوچستان میں بھٹو حکومت کے ہاتھوں 1972ء میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی پہلی حکومت ٹوٹنے کے بعد جب اس وقت بلوچستان میں مسلح جدوجہد اپنے عروج پر تھی تب ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے سلیگ ہیریسن پاکستان، ایران، افغانستان کے طویل دشوار گزار راستوں، پہاڑوں اور شہر کا سفر کرتا ہے تاکہ وہاں کی مزاحمتی تحریک کے قائدین اور دانشوروں سے مکالمہ کرسکے۔
یقیناً یہ محض ایک مصنف یا محقق کا کام نہیں تھا بلکہ ’پروجیکٹ‘ تھا جسے کئی سال کی محنت و مشقت کے بعد ایک دستاویز کی صورت میں شائع کیا گیا۔
ان برسوں میں بلوچستان پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں مگر شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو جس میں سلیگ ہیریسن کی کتاب کا حوالہ نہ دیا گیا ہو۔ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ حادثاتی طور 1976ء میں میری کراچی میں سلیگ ہیریسن سے طویل ملاقات ہوئی۔ یونیورسٹی کے دنوں میں، میں بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او سے قریب تھا۔ انجینئر حمید بلوچ جو کہ ان دنوں انڈر گراؤنڈ تھے، کراچی میں میرے رابطے میں تھے۔ ان ہی کے ساتھ کراچی کے جبیس ہوٹل میں ہماری ملاقات سلیگ ہیریسن سے ہوئی۔ اپنی اسی کتاب میں سلیگ ہیریسن نے حمید بلوچ سے ہونے والی ملاقات کا بھی ذکر کیا ہے۔
تمہید طول پکڑ گئی۔ میں وطن عزیز کے اُس وقت جلتے سلگتے مسئلے بلوچستان پر مضمون باندھتے ہوئے براہ راست ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ اور اس کے مستقبل پر آنا چاہ رہا تھا مگر یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان کا معاملہ ہی ایسا ہے کہ جس کی گرہ کھولتے ہی سرسری ہی سہی مگر تاریخ میں جائے بغیر اسے سمجھا نہیں جاسکتا۔
تقسیم ہند کے وقت جب پاکستان اور ہندوستان کی ریاستیں وجود میں آئیں تو 544 آزاد ریاستوں میں بلوچستان بھی ایک ایسی ریاست تھی جو براہ راست برطانیہ کے ماتحت تھی۔ 14 اگست 1947ء کو جب پاکستان آزاد ہوا تو بلوچستان اس کا حصہ نہیں تھا۔ خان آف قلات میر احمد یار خان ایک آزاد ریاست کے طور پر بلوچستان کی آزادی کا اعلان کرچکے تھے۔

المیہ دیکھیے کہ بلوچستان کو صوبے کی حیثیت ہی ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد 1970ء میں ملی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد متحدہ پاکستان میں جنرل یحییٰ خان نے جو پہلے عام انتخابات کروائے، انہیں اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ نے قبول نہیں کیا جس کے نتیجے میں پاکستان ہی دولخت ہوگیا۔
1970ء کے انتخابات میں جہاں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے پنجاب اور سندھ میں کامیاب ہوئی وہیں بلوچستان اور صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کو اکثریت ملی۔ یہ بات بھی اپنی جگہ کافی اہم اور دلچسپ ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں پیپلز پارٹی کو قومی و صوبائی اسمبلی میں ایک بھی نشست نہ مل سکی بلکہ اس وقت کے صوبہ سرحد میں پی پی کو قومی اسمبلی کی ایک جبکہ صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں ملی تھیں۔
بہرحال اسے بھٹو صاحب کی سیاسی بصیرت سے ہی منسوب کیا جائے گا کہ انہوں نے بلوچستان اور صوبہ سرحد کے حالات اور تاریخی پس منظر کے پیش نظر نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کو وزارتیں دینے کی دعوت تو دی ہی جو ان کا آئینی حق تھا مگر دونوں صوبوں میں نیپ اور جے یو آئی کو گورنری بھی سونپ دی حالانکہ آئین کے تحت صوبوں میں اپنا گورنر لگانا وفاق کا حق ہوتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو، میرغوث بخش بزنجو سے باحیثیت گورنر 28 اپریل 1972ء کو حلف لیتے ہیں جبکہ یکم مئی 1972ء کو عطا اللہ مینگل وزیر اعلیٰ منتخب ہوتے ہیں لیکن نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کا یہ ’ہنی مون‘ سال بھی نہیں چل پاتا۔ پنجاب اور اس کی اسٹیبلشمنٹ سے بلوچوں اور پختونوں کے درمیان نفرت بلکہ انتقام کی آگ وقتی طور پر دھیمی تو ہوئی تھی مگر یہ بجھی نہیں تھی۔

یقیناً پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی سے منظور شدہ 1973ء کے آئین پر ایک نواب خیر بخش مری اور علی احمد تالپور کو چھوڑ کر تمام ہی فریقین نے دستخط کیے تھے مگر وفاق اور صوبوں میں حکومتوں کے بنتے ہی تقسیم اختیارات میں پہلے اختلافات اور پھر ان اختلافات نے محاذ آرائی کی صورت حال پیدا کردی۔ بلوچ قیادت خاص طور پر سخت گیر وزیر اعلیٰ سردار عطااللہ مینگل کا پہلے ہی دن سے یہی مؤقف تھا کہ وفاق کے ماتحت پنجابی نوکر شاہی اور نیم فوجی دستوں کی موجودگی میں بلوچستان کو سیاسی و معاشی خودمختاری نہیں مل سکتی۔
سردار عطااللہ مینگل کا یہ قدم کتنا دانشمندانہ اور زمینی حقائق پر مبنی تھا، اس پر گفتگو اس لیے نہیں ہوسکتی کیونکہ سردار عطااللہ مینگل گورنر غوث بخش بزنجو جیسے جہاندیدہ معتدل سیاست دان کے مقابلے میں وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی اپنے سخت گیر سرداری پس منظر کے سبب ایک سردار کی حیثیت سے ہی بلوچستان حکومت کو چلانا چاہتے تھے جو بہرحال وہاں کے عوام اور عسکریت پسند نوجوان بلوچ طلبہ کی سوچ کی بھی آئینہ دار تھی۔
وزیر اعلیٰ سردار عطااللہ مینگل نے اقتدار میں آتے ہی سیکڑوں کی تعداد میں پنجابی بیوروکریٹس اور پولیس افسران کو یک جنبش قلم صوبہ بدر کردیا۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں حکومتیں وفاقی ہوں یا صوبائی انہیں چلانے کے لیے انگریز دور کی سول ملٹری بیوروکریسی کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں نوکر شاہی کا کردار قیام پاکستان کے بعد سے ہی کلیدی رہا۔ بلوچستان میں قدیم سرداری نظام کے سبب کوئٹہ شہر میں صرف ایک ڈگری کالج تھا۔ بلوچستان میں 1970ء سے پہلے نہ کوئی انجینئرنگ کالج تھا، نہ کوئی میڈیکل۔ بلوچستان یونیورسٹی کا قیام بھی 1970ء کے بعد عمل میں آیا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی اکثریت کراچی اور لاہور سے ماسٹرز کی ڈگری لے کر آتی تھی جس کے سبب انہیں نچلے گریڈوں میں نوکریاں ملتی تھیں۔
میجر جنرل ریٹائرڈ فدا ملک اپنی کتاب ’BALOCHISTAN A CONFLICT OF NARRATIVE‘ میں لکھتے ہیں کہ 2009ء تک بلوچستان میں نوکر شاہی میں بلوچوں کی نمائندگی 0.7 فیصد تھی، پشتون کی 11.9 فیصد، مہاجر کی 17.3 جبکہ پنجاب والوں کی نمائندگی 47.9 فیصد تھی۔ بھٹو حکومت نے وزیر اعلیٰ عطااللہ مینگل کے اس اقدام کو بغاوت کے زمرے میں لیا۔
بلوچستان میں نوزائیدہ نیپ کی حکومت کے خاتمے کا دوسرا بڑا سبب عراقی اسلحہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے آرکیٹیکٹ تو بھٹو حکومت کے سول ملٹری بیوروکریٹس ہی تھے مگر سہولت کاری حکومتی وزیر داخلہ نیپ کے روایتی دشمن قیوم خان نے کی اور اس سے بھی بڑھ کر نواب اکبر خان بگٹی کا نام آیا جوکہ اس وقت نیپ کی قیادت سے متنفر ہو چکے تھے۔

اسلام آباد میں عراق کے ڈیفنس اتاشی کے گھر سے روسی ساخت کے اسلحے کی بذریعہ ریل گاڑی پورے ملک میں نمائش کروائی گئی تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ بلوچستان میں نیپ کی حکومت علیحدگی اور مسلح جدوجہد کی تیاری میں مصروف ہے۔ یہ الزام بذات خود بڑا مضحکہ خیز تھا کہ بلوچستان میں اسلحہ باآسانی افغان بارڈر سے اسمگل ہوسکتا تھا۔ بلوچستان کے حوالے سے اس وقت کے شاہ ایران کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایران کے تخت پر بیٹھے شاہ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ بلوچستان پر ان کی بالادستی ہو۔
نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کے دوران شاہ ایران کی بہن شہزادی ثریا کا دورہ بلوچستان ایک بڑا چیلنج تھا۔ شاہ ایران کی بہن شہزادی ثریا کا استقبال شاہانہ انداز میں ہوا۔ وزیر داخلہ خان قیوم خان کی سازشوں کے باوجود نیپ کی حکومت نے شہزادی ثریا کو پروٹوکول دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

قیوم خان بلکہ اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ کی سفاکانہ سوچ کا اس بات سے اندازہ لگائیں کہ وزیر داخلہ قیوم خان بڑی تعداد میں اپنی سیکیورٹی فورسز کوئٹہ لے کر آئے جہاں نیپ کے حامیوں کو اشتعال دلانے کے لیے کوئٹہ میں جلوس نکالا گیا جس کے نتیجے میں خونریز تصادم ہوا۔ نیپ کا ایک کارکن ہلاک ہوا جس کی لاش لے کر نیپ کے حامی گورنر ہاؤس پہنچ گئے۔ گورنر بزنجو نے معافی تلافی کے بعد ان مشتعل مظاہرین کو واپس بھیجا۔
نیپ کی حکومت ختم کرنے کے لیے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کیے گئے اس کی تفصیل میں مزید نہیں جاؤں گا۔ نیپ میں کامریڈ اور ان کے زیرِ اثر بی ایس او کا ایک گروپ اور پھر خاص طور پر پشتون قیادت بھی نیپ اور پی پی اتحاد، خاص طور پر گورنر غوث بخش بزنجو اور صدر بھٹو کے درمیان تعلقات اور کام کرنے کے انداز سے خوش نہیں تھی۔
انہی دنوں میر غوث بخش بزنجو پر بابائے مذاکرات کی بپھتی کسی گئی اور یہ بھی ان کے دوستوں کی جانب سے۔ پشاور میں ہونے والا نیشنل عوامی پارٹی کا آخری کنونشن گویا اس اتحاد کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ اس کنونشن کی صدارت ولی خان کے لندن میں ہونے کے سبب ان کی غیر موجودگی میں اجمل خٹک نے کی۔ نیپ کی پشتون قیادت اور کامریڈوں نے میر غوث بخش بزنجو کے خلاف محاورے کی زبان میں ڈیڑھ سو تقاریر کیں، اکثریت سے قرارداد پاس ہوئی کہ بھٹو سے معاہدہ توڑا جائے جس کے نتیجے میں بلوچستان اور صوبہ سرحد میں حکومتیں تو ختم ہونا ہی تھیں۔
میر غوث بخش بزنجو نے کنونشن میں اپنی تقریر کے دوران ایک تاریخی جملہ کہا کہ ’اب ملک میں مارشل لا لگے گا، بھٹو فوج کی گود میں چلا جائے گا اور ہم جماعت اسلامی کی۔ اور پھر اس کے نتیجے میں ہماری حکومتیں تو خیر جائیں گی ہی ساتھ ہی پاکستان میں جمہوریت کا جنازہ بھی اٹھ جائے گا‘۔
نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جہاں بزنجو، مینگل، مری سمیت سیکڑوں سیاسی رہنما گرفتار ہوئے وہیں خاص طور پر مری، مینگل کے قبائلی جنگجو ایک بار پھر پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس بار ان کے ساتھ بی ایس او کے عسکریت پسند نوجوان بھی تھے۔
بلوچستان کی چوتھی بڑی گوریلا جنگ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس کی تصدیق میجر جنرل ریٹارڈ فدا ملک اپنی کتاب کے صفحہ 53 میں لکھتے ہیں کہ بھٹو حکومت نے پہاڑوں پر سے ہونے والے حملوں کے جواب میں ایک بھرپور فوجی آپریشن کا آغاز کیا جس میں 80 ہزار فوجی اہلکاروں نے حصہ لیا۔
میجر فدا ملک مزید لکھتے ہیں کہ پہاڑوں سے لڑنے والے بلوچ جنگجوؤں کی تعداد 55 ہزار تھی اور دونوں جانب سے کم و بیش 8 ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ 1972ء میں شروع ہونے والی بغاوت 4 سال جاری رہی، اس دوران اس وقت کے گورنر حیات محمد شیر پاؤ کی پشاور یونیورسٹی میں ہلاکت کے بعد نیپ پر پابندی لگا دی گئی اور پھر 55 پشتون سیاسی رہنماؤں پر حیدرآباد جیل میں مقدمہ چلایا گیا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حیدرآباد جیل میں چلنے والا مقدمہ جسے حیدرآباد سازش کیس کا نام دیا گیا، اس میں بلوچوں اور پشتونوں کے علاوہ عوامی شاعر حبیب جالب بھی اس لیے گرفتار کیے گیے کیونکہ وہ نیپ کی سینٹرل کمیٹی کے رکن تھے۔ جالب صاحب کے اس شعر نے بعد میں بڑی شہرت پائی جو انہوں نے ججز کو مخاطب کرتے ہوئے پڑھا تھا،
دلچسپ بات یہ ہے کہ 23 سال پہلے اسی حیدرآباد جیل میں پنڈی سازش کیس بھی چلا تھا۔ بی ایس او سے تعلق کے سبب مجھے غوث بخش بزنجو کے شاگرد اور سیکریٹری مجید بلوچ کے ساتھ ایک سے کئی بار حیدرآباد جیل جانے کا اتفاق ہوا۔ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار حکومتی وکیل اور ملزمان کے بڑے وکیل میاں محمود علی قصوری تھے۔
جولائی 1977ء میں بھٹو حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ مقدمہ بھی لپیٹ دیا گیا۔ اس دوران حیدرآباد جیل میں محض بلوچ پشتون قیادت ہی تقسیم نہیں ہوئی بلکہ غوث بخش بزنجو کی معتدل سیاست کے خلاف نواب خیر بخش مری اور نوجوان بلوچوں کی اکثریت نے بھی رہا ہوکر کابل اور ماسکو میں پناہ لی۔
1970ء کی دہائی میں بلوچستان کی چوتھی بڑی مزاحمتی تحریک کی تفصیل کو سمیٹتے ہوئے بلوچ لبریشن فرنٹ یعنی بی ایل ایف کا ذکر بھی کرتا چلوں کہ اس جنگ کے دوران بی ایل ایف کی قیادت ایک لیفلیٹ نکالتی ہے جس میں چھاپہ مار کارروائیوں کو پوری تفصیل کے ساتھ دیا گیا۔ بی ایل ایف کا ذکر آیا ہے تو آج بلوچستان کے حوالے سے بی ایل اے ایک ایسا نام بن چکا ہے جسے گھر گھر جانتا ہے۔ اس کا ذکر آگے چل کر ہوگا کہ کیونکہ اس وقت ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کا پہلا باب ہی کھولا ہے۔ (جاری ہے)