• KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C

فیکٹ چیک: باجوڑ میں خواتین کے احتجاج کی وائرل ویڈیو حالیہ آپریشن سے متعلق نہیں

شائع July 31, 2025
فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو: ڈان نیوز

سوشل میڈیا پر متعدد صارفین نے ایک ویڈیو شیئر کی، جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ویڈیو باجوڑ میں حالیہ فوجی آپریشن کے خلاف خواتین کے احتجاج کو دکھاتی ہے۔

آئی ویریفائی پاکستان کی ٹیم کی جانب سے اس دعوے کے بعد ایک فیکٹ چیک شروع کیا گیا، جس سے پتا چلا کہ یہ ویڈیو پرانی ہے اور 2021 کے ایک احتجاج کی ہے، جو ایک سیاسی کارکن کے قتل کے خلاف کیا گیا تھا۔

سیکیورٹی فورسز نے 29 جولائی کو ضلع کے 16 علاقوں میں تین روزہ کرفیو نافذ کرکے اور شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا۔

درجنوں افراد، جن میں زیادہ تر نوجوان اور سیاسی کارکن شامل تھے، شگو ویلیج چوک پر جمع ہو کر آپریشن کے خلاف احتجاج کرنے لگے تھے، ان کا الزام تھا کہ سیکیورٹی فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں کئی بے گناہ افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔

دعویٰ

30 جولائی کو ایک پشتون حقوق کے کارکن نے ایکس پر ایک ویڈیو پوسٹ کی، جس میں برقع پوش خواتین کو ایک گلی سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا، جن میں سے کچھ کے ہاتھوں میں سیاہ جھنڈے تھے۔

پوسٹ کے کیپشن میں لکھا تھا کہ’ باجوڑ آپریشن کے خلاف پشتون خواتین بھی گھروں سے نکل آئی ہیں اور امن کا مطالبہ کر رہی ہیں، احتجاجی ریلی شروع ہو چکی ہے، پشتون خطے بھر میں نوجوان، بزرگ، خواتین اور بچے پشتو میں امن کے نعرے لگا رہے ہیں، سفید چادریں لہرا رہے ہیں اور پرامن زندگی کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن ریاستی ادارے ان کی آواز دبانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔’

یہ پوسٹ 30 ہزار سے زائد بار دیکھی گئی۔

پاکستانی سکھ صحافی ہرمیت سنگھ نے بھی یہی ویڈیو ایک پر شیئر کی اور کیپشن دیا کہ ’ خواتین باجوڑ آپریشن کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔’ ان کی پوسٹ کو ایک لاکھ 43 ہزار سے زائد ویوز ملے۔

اسی ویڈیو کو یوٹیوب پر بھی اپلوڈ کیا گیا، جہاں اس نے 40 ہزار ویوز حاصل کیے۔

اسی دعوے کے ساتھ دیگر شیئرز بھی یہاں، یہاں، یہاں، یہاں، یہاں، اور یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔

فیکٹ چیک

چونکہ باجوڑ میں جاری فوجی آپریشن عوامی دلچسپی اور مقامی غصے کا باعث بنا ہوا ہے، اس لیے اس ویڈیو کی حقیقت جاننے کے لیے فیکٹ چیک شروع کیا گیا۔

ویڈیو کے تبصروں میں متعدد صارفین نے اس کلپ کو افغانستان کے کسی احتجاج سے منسوب کیا۔

تاہم، ویڈیو کے مختلف اسکرین شاٹس پر ریورس امیج سرچ کے ذریعے ایک 23 نومبر 2021 کی فیس بک پوسٹ سامنے آئی، جس پر Hasban Media کا واٹرمارک موجود تھا۔

پوسٹ کرنے والے صارف نے، جو اس میڈیا ادارے میں کام کرنے کا دعویدار تھا، ویڈیو کے کیپشن میں لکھا کہ ’ باجوڑ میں محمد الیاس شہید کے قاتلوں کی گرفتاری کے مطالبے کے لیے دوسرے روز بھی دھرنا جاری ہے، اور سیاہ جھنڈے تھامے اور سیاہ پٹیاں باندھے ہوئے علاقے کی خواتین بھی احتجاج میں شامل ہو گئی ہیں۔’

اردو میں ’ باجوڑ’ ، ’ محمد الیاس شہید’ اور ’خواتین‘ جیسے کلیدی الفاظ کی تلاش سے کئی مقامی نیوز رپورٹس سامنے آئیں، جو اس واقعے کی تصدیق کرتی ہیں۔

23 نومبر 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق (دی نیوز انٹرنیشنل)، محمد الیاس شہید جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایک مقامی کارکن تھے، جنہیں 22 نومبر 2021 کو نامعلوم افراد نے گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔

مشرق ٹی وی اور سوات نیوز جیسے ذرائع نے بھی اس کے بعد ہونے والے احتجاج کو کور کیا، جس میں مقامی خواتین نے شرکت کی تھی۔

اسی احتجاج کی ایک ویڈیو خیبر نیوز نے 23 نومبر 2021 کو فیس بک پر شیئر کی، جس میں ایک خاتون پشتو زبان میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔

کیپشن میں لکھا تھا کہ’ باجوڑ میں مقامی خواتین نے سیاہ جھنڈے اور سیاہ پٹیاں پہن کر دھرنے میں شرکت کی، محمد الیاس شہید کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہی ہیں، نوٹ: یہ اپیل قاری محمد الیاس شہید کی اہلیہ کی جانب سے ہے۔’

روزنامہ ڈان کے نمائندے زاہد امداد کے مطابق، ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون قاری محمد الیاس کی اہلیہ تھیں، جو لیویز فورس کے رکن تھے، انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر نے قتل سے قبل چھ ماہ تک متعلقہ حکام، خصوصاً اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے تحفظ کی درخواست کی تھی کیونکہ انہیں دھمکیاں مل رہی تھیں۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ حکام تاخیری حربے استعمال کرتے رہے اور کہا کہ جب تک قاتل گرفتار نہ ہوتے، احتجاج جاری رہے گا اور اسلام آباد اور کراچی تک پھیلایا جائے گا۔

اپنے غم کے باوجود، انہوں نے شوہر کی شہادت پر فخر کا اظہار کیا، لیکن اس بات پر زور دیا کہ حکام نے یہ جانتے ہوئے کہ ان کی زندگی خطرے میں تھی، بروقت کارروائی نہیں کی۔

جب وائرل ویڈیو کا موازنہ اس پرانی ویڈیو سے کیا گیا تو ایک بچے کی موجودگی دونوں میں یکساں تھی، جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ دونوں ویڈیوز ایک ہی احتجاج کی ہیں۔

نتیجہ : گمراہ کُن

نتیجتاً، فیکٹ چیک سے یہ بات سامنے آئی کہ وائرل ویڈیو باجوڑ میں حالیہ فوجی آپریشن کے خلاف احتجاج کی نہیں بلکہ 2021 میں ایک مقامی سیاسی کارکن کے قتل کے خلاف ہونے والے احتجاج کی ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ گمراہ کن ہے۔

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025