• KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.6°C
  • ISB: Cloudy 16.6°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.6°C
  • ISB: Cloudy 16.6°C

چینی کی قیمتوں میں کمی کے لیے حکومت متحرک، شوگر مافیا کے نام ای سی ایل میں شامل

شائع August 1, 2025
— فائل فوٹو: اے پی پی
— فائل فوٹو: اے پی پی

چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے حکومت نے بڑا اقدام اٹھاتے ہوئے شوگر مافیا کے کئی بااثر افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کر دیے ہیں، یہ فیصلہ عوامی دباؤ اور ذخیرہ اندوزی کے بڑھتے خدشات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق چینی کی قیمتیں کنٹرول کرنے میں ناکامی اور درآمد کے باوجود، حکومت نے اب نرخوں کو مستحکم کرنے کے لیے شوگر مل مالکان کے خلاف سخت کارروائی کا ایک نیا راستہ اختیار کیا ہے۔

چینی مافیا کے کئی بااثر افراد کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی لگا دی گئی ہے، کیونکہ حکام ایسے اقدامات تلاش کر رہے ہیں جن کے ذریعے مل مالکان کو قیمتیں کم کرنے پر مجبور کیا جا سکے، جو بعض شہروں میں 200 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہیں، جب کہ سرکاری قیمت 173 روپے فی کلو مقرر ہے۔

وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین نے تصدیق کی ہے کہ متعدد شوگر مل مالکان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیے گئے ہیں، تاہم انہوں نے ان افراد کی شناخت یا تعداد نہیں بتائی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے ملوں میں موجود چینی کے ذخائر کا بھی کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

حکومت کو حالیہ دنوں میں عوام اور ارکانِ پارلیمنٹ کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے، کیونکہ وہ چینی کی قیمتیں مستحکم کرنے اور اس کی دستیابی کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔

چینی کا بحران حکومتی کمزوری اور ریگولیٹری اداروں کی عدم موجودگی کے باعث بار بار پیدا ہوتا رہا ہے۔

یہ ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہوتا ہے جس میں شوگر ملیں جو کہ زیادہ تر سیاسی خاندانوں کی ملکیت میں ہوتی ہیں، حکومت سے زائد اسٹاک کا جواز دے کر برآمد کی اجازت حاصل کر لیتی ہیں، اس کے بعد ملک میں چینی کی قلت پیدا ہوتی ہے اور قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔

پھر حکومت قیمتیں کم کرنے کے لیے چینی درآمد کرتی ہے، یوں مل مالکان بھاری منافع کماتے ہیں اور ملک کے قیمتی زرمبادلہ کو نقصان ہوتا ہے۔

اسی قسم کی صورتِحال رواں سال بھی دہرائی گئی۔

جونہی قیمتیں بڑھنے لگیں، وفاقی کابینہ نے 4 جولائی کو 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی منظوری دی، یہ اجازت ایک سال بعد دی گئی، جب ملز کو ایک لاکھ 50 ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، اس کے بعد حکومت اور شوگر انڈسٹری کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے مطابق ملیں چینی 165 روپے فی کلو میں فروخت کریں گی۔

تاہم، اس معاہدے سے قیمتیں کم نہیں ہو سکیں۔

ڈی ریگولیشن (سرکاری کنٹرول ختم کرنا)

جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر رانا تنویر نے کہا کہ چینی کی کوئی قلت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ قیمتوں میں بگاڑ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی پیدا کردہ ایک مصنوعی کمی ہے۔

پاکستان کے پاس ملکی ضروریات کے لیے وافر ذخیرہ موجود ہے اور صورتِحال مکمل طور پر قابو میں ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت چینی کے شعبے کو ڈی ریگولیٹ کرنا چاہتی ہے تاکہ مارکیٹ فورسز قیمتوں کا تعین کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل شروع ہو چکا ہے اور حکومت چینی کے کاروبار سے باہر آنا چاہتی ہے۔

تاریخی روایت

رانا تنویر نے چینی کی برآمدات کی اجازت دینے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے 7 لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن زائد چینی برآمد کر کے 40 کروڑ 2 لاکھ ڈالر کمائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اچانک نہیں تھا بلکہ ایف بی آر اور دیگر اداروں کے ڈیٹا کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ چینی کی برآمد ایک تاریخی روایت ہے جو دہائیوں پر محیط ہے اور کسی غیر معمولی عمل کی نمائندگی نہیں کرتی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی کے اسٹریٹجک ریزرو کو بطور بفر اسٹاک محفوظ رکھا ہے تاکہ ملک میں کسی بھی قلت سے بچا جا سکے۔

چینی کی درآمد کے حوالے سے وزیر نے واضح کیا کہ اگرچہ حکومت نے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن وہ صرف 3 لاکھ میٹرک ٹن درآمد کرنا چاہتی ہے، جس پر 15 کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔

انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ملک میں چینی کی کوئی حقیقی قلت ہے۔

رانا تنویر نے بتایا کہ اس وقت چینی کا کُل ذخیرہ 60 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن ہے، جس میں سے 50 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن رواں سال کی پیداوار ہے، جب کہ باقی بفر اسٹاک ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ذخیرہ سالانہ ملکی ضرورت (تقریباً 60 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن) کے لیے کافی ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر

وزیر غذائی تحفظ کے مطابق رواں سال گنے کی پسائی گزشتہ سال کے مقابلے میں 70 لاکھ 40 ہزار میٹرک ٹن کم رپورٹ ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ کم پسائی، شکر کی مقدار میں کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے چینی کی پیداوار کو متاثر کیا۔

اگرچہ ابتدائی اندازہ 70 لاکھ میٹرک ٹن چینی پیداوار کا تھا، تاہم اپریل کے اختتام تک اصل ذخیرہ 50 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن رہا۔

میگا شوگر اسکینڈل

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکومت پر قومی خزانے کو 287 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام لگایا ہے اور شوگر بحران کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

جمعرات کو پارٹی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں پی ٹی آئی ترجمان نے کہا کہ یہ بحران سیاسی اشرافیہ، ریاستی اداروں اور حکومتی اتحاد کی سرپرستی میں ایک منظم لوٹ مار اسکیم ہے۔

بولی کی پیش رفت

ادھر یورپی تاجروں کے مطابق پاکستان کو جمعرات کے روز عالمی ٹینڈر میں ایک لاکھ میٹرک ٹن سفید ریفائنڈ چینی کی خریداری کے لیے 539 ڈالر فی ٹن کی سب سے کم قیمت ملی۔

رائٹرز کے مطابق ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کی جانب سے پیش کردہ بولیوں پر غور جاری ہے اور ابھی کوئی خریداری رپورٹ نہیں ہوئی۔ سب سے کم بولی ED&F Man ٹریڈنگ ہاؤس کی جانب سے 50 ہزار ٹن باریک دانے دار چینی کی دی گئی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025