حماس نے اقتدار نہ چھوڑا تو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے گا، ٹرمپ کی پھر دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک بار پھر حماس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حماس نے اقتدار نہ چھوڑا تو اسے صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے گا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا ہے کہ اگر حماس نے اقتدار چھوڑنے اور غزہ کا کنٹرول دینے سے انکار کیا، تو اسے ’ مکمل تباہی’ کا سامنا کرنا پڑے اور ’ صفحہ ہستی’ سے مٹادیا جائے گا۔
امریکی صدر کا یہ بیان ان کوششوں کے دوران سامنے آیا ہے جو ان کے مجوزہ جنگ بندی منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
جب سی این این کے اینکر جیک ٹیپر نے ٹرمپ سے ٹیکسٹ پیغام کے ذریعے پوچھا کہ اگر حماس اقتدار میں رہنے پر اصرار کرتی ہے تو کیا ہوگا، تو ٹرمپ نے جواب دیا: ’ مکمل تباہی!’
جیک ٹیپر نے صدر سے سوال کیا کہ سینیٹر لنزے گراہم کے مطابق حماس نے ٹرمپ کے 20 نکاتی جنگ بندی منصوبے کو مؤثر طور پر مسترد کر دیا ہے، کیونکہ وہ غیر مسلح ہونے سے انکار کر رہی ہے، غزہ کو فلسطینی کنٹرول میں رکھنے پر اصرار کر رہی ہے، اور یرغمالیوں کی رہائی کو مذاکرات سے مشروط کر رہی ہے، تو کیا گراہم غلط ہیں؟
اس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ’ ہم دیکھیں گے۔ وقت ہی بتائے گا!!!’
صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں جلد ہی اس بات پر وضاحت کی امید ہے کہ آیا حماس واقعی امن کے لیے پرعزم ہے یا نہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو غزہ میں بمباری ختم کرنے اور صدر کے وسیع تر وژن کی حمایت پر متفق ہیں، تو ٹرمپ نے کہا کہ’ ہاں، بی بی ( نیتن یاہو) اس پر متفق ہیں۔’
امریکی صدر نے مزید کہا کہ وہ پرامید ہیں کہ ان کا جنگ بندی منصوبہ جلد حقیقت بنے گا، اور اس کے حصول کے لیے وہ ’ سخت محنت کر رہے ہیں۔’
خیال رہے کہ یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 29 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اسرائیل کی غزہ پر جنگ ختم کرنے کے لیے 20 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
منصوبے کے تحت تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے درجنوں فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے، حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کیا جائے گا، اسرائیلی فوج بتدریج واپس بلائی جائے گی اور غزہ کی حکمرانی کے لیے ایک غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کمیٹی قائم کی جائے گی۔
منصوبے میں فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے راستے کا ذکر موجود ہے، لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی۔
واضح رہے کہ حماس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ غزہ امن منصوبے پر مثبت ردعمل دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ عرب، اسلامی اور بین الاقوامی کوششوں کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کی بھی قدر کرتے ہیں، جو غزہ کی جنگ ختم کرنے، قیدیوں کے تبادلے، فوری امداد کی فراہمی، غزہ کے قبضے کے خاتمے، اور فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کے خلاف ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ گروپ، صدر ٹرمپ کی تجویز میں بیان کردہ فارمولے کے مطابق تمام اسرائیلی قیدیوں (زندہ یا باقیات) کی رہائی پر آمادگی ظاہر کرتا ہے، بشرطیکہ میدان میں اس کے لیے عملی حالات موجود ہوں۔
گروپ نے یہ بھی کہا کہ وہ فوری طور پر ثالثوں کے ذریعے مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے، تاکہ رہائی کی تفصیلات پر بات کی جا سکے۔
تاہم حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ 72 گھنٹوں کے اندر قیدیوں اور لاشوں کی حوالگی نظریاتی بات ہے، زمینی حقائق میں ممکن نہیں۔
انہوں نے ’مڈل ایسٹ آئی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے قومی طور پر اتفاق کیا ہے کہ غزہ کا انتظام غیر جانبدار افراد کے سپرد کیا جائے اور یہ فلسطینی اتھارٹی کے تحت ہو، عوام کے مستقبل کا فیصلہ ایک قومی مسئلہ ہے، جس کا فیصلہ صرف حماس نہیں کر سکتی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ترجیح جنگ اور قتلِ عام کو روکنا ہے اور اسی نقطۂ نظر سے ہم نے منصوبے کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ حماس اسرائیلی قبضے کے خاتمے سے پہلے غیر مسلح نہیں ہوگی اور غزہ کے مستقبل سے متعلق امور پر جامع فلسطینی قومی فریم ورک کے اندر بات ہونی چاہیے، جس کا حماس بھی حصہ ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ گروپ اپنے اور اپنے ہتھیاروں سے متعلق تمام معاملات پر مذاکرات کرے گا۔













لائیو ٹی وی