ریگولیٹری ناکامیوں کی بھاری قیمت کا بوجھ بجلی کے صارفین اٹھانے پر مجبور
پاکستان میں بجلی کے صارفین کو تقریباً 21 کروڑ 50 لاکھ روپے کا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ ریگولیٹری کمزوریاں ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ مہنگی بجلی کی وجوہات کے طور پر اکثر کیپیسٹی ٹریپ، کرنسی کی قدر میں کمی اور زرِ مبادلہ کی غیر یقینی صورتحال کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن کمزور معاہداتی عمل درآمد اور ناکافی ریگولیٹری نگرانی جیسے مسائل پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی، جو دراصل نجی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کی خلاف ورزیوں کا بوجھ براہِ راست صارفین پر ڈال رہے ہیں۔
کوئلے کی سپلائی میں ڈیفالٹ
تازہ واقعہ پنجاب کے ایک کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر سے متعلق ہے، جہاں ایک طویل المدتی سپلائر نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
بعد ازاں، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (گارنٹی) لمیٹڈ (سی پی پی اے-جی) کے فیصلوں نے اس نقصان کا مالی بوجھ براہِ راست صارفین پر ڈال دیا، جو بجلی کے نرخوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا۔
یہ کوئلہ خریداری کے عمل میں جاری کمزوریوں کی ایک مثال ہے، جو اس سال کے اوائل میں بھی منظرِ عام پر آئی تھیں، ان پر تحقیقات ہوئیں اور جزوی اصلاحات بھی کی گئیں، مگر مسئلہ اب بھی برقرار ہے اور عوام پر مالی دباؤ بڑھا رہا ہے۔
نیپرا کو اس معاملے پر 22 ستمبر کو سوالات بھیجے گئے، مگر کئی وعدوں کے باوجود ادارہ تحریری جواب فراہم نہیں کر سکا۔
پس منظر
یہ معاملہ دسمبر 2024 میں ایک طویل المدتی کوئلہ سپلائی معاہدے کی خلاف ورزی سے شروع ہوا۔
یہ ٹھیکہ مسابقتی عمل کے ذریعے دیا گیا تھا جس کے تحت کمپنی نے اے پی آئی-4 کوئلے پر 2.51 ڈالر فی ٹن کی رعایت کی پیشکش کی تھی، جو پہلے کے معاہدے (0.50 ڈالر رعایت) کے مقابلے میں بہت بہتر تھی۔
تاہم، سپلائر نے فورس میجر (غیر متوقع حالات) کا حوالہ دے کر سپلائی روک دی، اس نے جنوبی افریقہ کے رچرڈز بے کوئلہ ٹرمینل پر رش اور بھارت-پاکستان کشیدگی کو جواز بنایا۔
ماہرین کے مطابق ٹرمینل پر رش ایک عام تجارتی خطرہ ہے، اور بھارت-پاکستان کشیدگی کے باوجود دیگر سپلائرز نے اپنی فراہمی جاری رکھی، جب کہ پاکستان کی دیگر صنعتوں نے بھی بغیر رکاوٹ کوئلہ درآمد کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی سپلائر اس دوران دیگر شعبوں کو کوئلہ فراہم کرتا رہا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل وجہ کم رعایتی قیمت تھی، نہ کہ کوئی حقیقی فورس میجر صورتحال کی وجہ سے سپلائی روکی گئی۔
اضافی اخراجات
اس ڈیفالٹ کے نتیجے میں بجلی گھر کو دوسرے سپلائر سے کوئلہ خریدنا پڑا، جس کی قیمت 1.86 ڈالر فی ٹن زیادہ تھی۔
تقریباً 3.72 لاکھ ٹن کوئلے کی اس عدم فراہمی سے 6 لاکھ 91 ہزار 931 ڈالر (تقریباً 19.7 کروڑ روپے) کا نقصان ہوا۔
نیپرا نے 26 جون 2025 کے فیصلے میں یہ مکمل نقصان صارفین پر ڈالنے کی اجازت دے دی، بجائے اس کے کہ یہ رقم ڈیفالٹ کرنے والی کمپنی سے وصولی کی جاتی۔
معاہدے کے مطابق غلطی کرنے والا فریق یہ اضافی لاگت ادا کرنے اور اپنی کارکردگی کی ضمانت ضبط کروانے کا پابند تھا۔
ریکارڈ کے مطابق، یہ ضمانت ضبط نہیں کی گئی اور نقصان کی وصولی بھی عمل میں نہیں لائی گئی۔
مزید یہ کہ خلاف ورزی کے باوجود اسی کمپنی کو نئے ٹینڈرز میں حصہ لینے اور جیتنے کی اجازت ملی۔
11 جون 2025 کے اسپاٹ ٹینڈر میں اسی کمپنی نے صرف 1.58 ڈالر فی ٹن رعایت دی، جو پرانے معاہدے سے 93 سینٹ کم تھی۔
اس فرق سے 55 ہزار 800 ڈالر (تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ روپے) کا اضافی بوجھ بھی صارفین پر آگیا۔
ریگولیٹری ناکامیاں
سی پی پی اے-جی کی جانب سے ڈیفالٹ کرنے والی کمپنی کو نئے معاہدوں کے لیے این او سی جاری کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ مؤثر سزا کا نظام موجود نہیں۔
نیپرا کی ایک تحقیقاتی کمیٹی نے پہلے بھی کوئلہ خریداری کے عمل میں بے ضابطگیاں تسلیم کی تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نظام میں محدود مقابلہ اور ریگولیٹری رہنما اصولوں کی عدم موجودگی کے باعث ایک ہی بولی دہندہ کو اکثر ٹھیکے مل جاتے ہیں۔
کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ آزاد کوئلہ ریگولیٹر قائم کیا جائے تاکہ صارفین کو ناجائز اخراجات سے بچایا جا سکے، تاہم 8 ماہ گزرنے کے باوجود یہ سفارشات اب تک نافذ نہیں ہو سکیں۔













لائیو ٹی وی