بیرون ملک سفر کی نئی شرائط: اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے امریکا کا گرین کارڈ واپس کردیا

شائع October 16, 2025
— فوٹو: اے ایف پی
— فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے نئی سفری پالیسی کے نفاذ کے بعد اپنا امریکا کا مستقل رہائش (گرین کارڈ) واپس کر دیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے امریکا کا مستقل رہائشی (گرین کارڈ) واپس کر دیا ہے کیونکہ نئی سخت تعطیلات اور سفر کی پالیسی کے مطابق ججز کو بیرون ملک جانے سے پہلے چیف جسٹس سے اجازت لینا ضروری ہے۔

اعلیٰ ذرائع کے مطابق جج نے گرین کارڈ کی منسوخی کے بعد اپنے سرکاری پاسپورٹ پر پانچ سالہ ویزا حاصل کر لیا ہے۔

یہ فیصلہ حال ہی میں صدارتی آرڈیننس اور جنرل اسٹینڈنگ آرڈر میں کی گئی ترامیم کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے مطابق ججز کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملک سے باہر جانے سے پہلے اپنی متعلقہ عدالت کے چیف جسٹس سے عدم اعتراض سرٹیفکیٹ (این او سی) حاصل کریں، چاہے وہ چھٹیوں یا تعطیلات کے دوران ہی کیوں نہ سفر کر رہے ہوں۔

پالیسی کے تحت جاری کردہ نئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز کے مطابق جج کا پورا وقت جس میں چھٹیاں، تعطیلات اور رخصت شامل ہیں، ریاست کے اختیار میں ہوتا ہے، چیف جسٹس کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسی چھٹیاں منظم کریں اور جج کے بیرون ملک جانے کے بعد بھی انہیں منسوخ کر سکتے ہیں، ججز کو کسی بھی چھٹی کے دوران اپنے رابطہ نمبر اور پتا فراہم کرنا لازمی ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ قواعد ان ججز کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں جن کے پاس غیر ملکی مستقل رہائش ہے، خاص طور پر امریکی گرین کارڈ رکھنے والے ججز کے لیے۔

امریکی امیگریشن قوانین کے مطابق گرین کارڈ رکھنے والے افراد کو یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ وہ امریکا میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور طویل عرصے تک ملک سے باہر رہنا خاص طور پر چھ ماہ سے زیادہ سوالات اور ممکنہ طور پر رہائشی حقوق کی منسوخی کا سبب بن سکتا ہے۔

اگر کوئی گرین کارڈ رکھنے والا ایک سال سے زیادہ بیرون ملک رہتا ہے تو اس کا گرین کارڈ ختم ہو سکتا ہے، جب تک کہ وہ خصوصی ریٹرننگ ریذیڈنٹ ویزا حاصل نہ کرے۔

عدالتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ نئی پالیسی نے ججز کے لیے غیر ملکی رہائش برقرار رکھنا مشکل بنا دیا ہے، جب کہ وہ پاکستان میں اپنے آئینی اور انتظامی فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جج نے گرین کارڈ واپس کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تاکہ نئی عائد شدہ سفر کی پابندیوں سے کوئی تصادم نہ ہو اور عدالت کے انتظامی فریم ورک کے ساتھ مکمل مطابقت یقینی بنائی جا سکے۔

اس پیش رفت نے یہ قیاس آرائیاں بھی ختم کر دی ہیں کہ کچھ ججز اندرونی اختلافات اور انتظامی گروہ بندی کی رپورٹس کے بعد استعفیٰ دینے پر غور کر رہے تھے بلکہ یہ اقدام ادارہ جاتی پالیسی کے مطابق عمل کرنے اور بیرون ملک سفر میں شفافیت برقرار رکھنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

قبل ازیں جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو لکھے گئے ایک خط میں این او سی کی شرط پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے جج کے بنیادی حقِ حرکت کی واضح خلاف ورزی اور ججز کو عملی طور پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر رکھنے کے مترادف قرار دیا تھا۔

ان کے خط میں دلیل دی گئی کہ ایسے انتظامی کنٹرول عدلیہ کی خودمختاری کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

تاہم، اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی عدالتی رویے میں ہم آہنگی، نظم و ضبط اور شفافیت لانے کے لیے ہے، جو آئینی اصولوں اور عوامی خدمت کے معیار کے مطابق ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025