ایک کڑوا گھونٹ
بہت عرصے سے گفتگو کا موضوع شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن کی عنقریب شروعات ہوتی دکھائی دے رہی ہیں ۔ حالانکہ اس کے وقت کا حتمی تعین ہونا ابھی باقی ہے،لیکن عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر مرحلہ وار فوجی آپریشن کی تیاریاں پہلے ہی جاری ہیں۔
یقینناً اس خطے میں آپریشن کی حمایت کے لیے بہت مضبوط دلائل موجود ہیں جسے زمین پر خطرناک ترین علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔ مگرپہلے سے ہی بہت مصروف افواج کو ایک بار پھر انتہائی مشکل علاقے میں نہ ختم ہونے والے خونی معرکے میں دھکیلنے کے حوالے سے سوالیہ نشان موجود ہیں ۔
سب سے اہم بات یہ کہ کیا ایک سیاسی طور پر شکستہ ملک اپنی ڈوبتی معیشت کے ساتھ اس طویل لڑائی کے اثرات برداشت کر پائے گا؟ ایک آپریشن کی وجہ سے نہ صرف علاقے کی زیادہ تر آبادی کو نقل مکانی کرنی پڑے گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے باقی حصے بھی خود کش حملوں کی صورت میں دہشت گردوں کی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
یہ پاکستان فوج کا شمالی وزیرستان میں پہلا آپریشن نہیں ہوگا۔ دو ہزار چار کے آپریشن میں دو سالہ شدید جنگ کے بعد قبائلی عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک امن معاہدہ طے پایا تھا۔ جنگ بندی نے نہ صرف عسکریت پسندوں کو دوبارہ طاقتور ہونے کا موقع فراہم کیا بلکہ انہیں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا بھی موقع فراہم ملا تھا اس لیے اب انہیں ختم کرنا اور بھی زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔
شمالی وزیرستان کا علاقہ، القاعدہ، پاکستانی عسکریت پسندوں اور افغان طالبان کی مہلک کارروائیوں کا مرکز بننے کے بعد سے تمام تر خرابیوں کی جڑ بن چکا ہے جو اب نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں موجود نیٹو افواج کی سیکیورٹی کیلیے بھی ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
افغان سرحد سے نزدیک یہ پہاڑی علاقہ امریکا کی زیر قیادت افواج سے لڑنے والے سب سے طاقتور گروہ حقانی نیٹ ورک کا بھی گڑھ ہے۔ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی کی ایک اہم وجہ بھی پاکستان کی اس گروہ پر حملہ کرنے میں ہچکچاہٹ ہے۔ کابل اور مشرقی افغانستان میں امریکی افوج اور تنصیبات پر کیے جانے والے لگاتار حملوں میں بھی اسی گروہ کو مورد الزام ٹہرایا گیا جس کی وجہ سے معاملات اور زیادہ سنگین ہوگئے۔
دریں اثنا یہ تمام علاقہ پاکستانی عسکریت پسند گروہوں کی تربیت کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے جن میں سے بہت سے گروہ القاعدہ سے ملے ہوئے ہیں۔ جنوبی وزیرستان سے فرار حکیم اللہ محسود کی قیادت میں پاکستانی طالبان نے ملک کے باقی حصوں پر حملے کرنے کے لیے اس خطے کو دہشتگرد حملوں کے لیے ایک نیا اڈہ بنا لیا ہے۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے تمام دہشت گرد حملوں کے تانے بانے شمالی وزیرستان سے ملتے ہیں۔ بنوں جیل پر طالبان کے حملے اور خونخوار عسکریت پسند سمیت درجنوں دیگر قیدیوں کو آزاد کرانے کے واقعے سے اس علاقے میں سیکیورٹی مسائل کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
پاکستانی سیکورٹی عہدیداروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ علاقہ سرحد پار سے آنے والے القاعدہ کےارکان اور باغیوں کے لئے آرام اور تفریح کی جگہ بھی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان سے دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کیے بغیر ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا خاتمہ ناممکن ہے۔
القاعدہ سے جڑے ایک طاقتور عالم حافظ گل بہادر ایک بہت زیادہ بااثر مقامی عسکریت پسند گروہ کی سربراہی کرتے ہیں۔ عسکریت پسند کمانڈرزمیں سب بڑا معمہ بنے ہوئے اس شخص نے علاقے کی دوسری قوتوں سے اتحاد بنا کر اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھا ہے۔
گل بہادر نے پاکستانی فوج کے ساتھ بہت سے امن معاہدے کئے ہیں جن میں اس نے غیرملکی جنگجوؤں کے اخراج کے بدلے میں اپنے خلاف پاک فوج کا آپریشن ختم کرانے پر اتفاق کیا تھا تاہم اس کے برعکس وہ کبھی اپنے وعدوں پر پورا نہیں اترا ہے بلکہ ان معاہدوں کے ذریعے القاعدہ کو تحفظ فراہم کیا۔
اس کے جنگجو علاقے میں اپنا اثروسوخ برقرار رکھنے کے لیے حکومتی افواج سے لڑتے رہتے ہیں۔ وہ سرحد پار نیٹو افواج پر حملوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پولیو مہم روکنے کی وجہ سے گل بہادر کا نام اخباروں کی شہہ سرخیوں کی زینت بنا تھا۔
افغانستان میں اینڈ گیم کی آمد نے اس خطے کی کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔ مگر ابھی بہت سے ایسے مسائل ہیں جن پر آپریشن شروع ہونے سے قبل غور کرنا ضروری ہے۔
نیٹو رسد کی بحالی سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات سے قطع نظرابھی بہت سے مسائل حل طلب ہیں جن میں سے سب سے اہم سی آئی آے کی طرف سے ڈرون حملے ہیں جو پاکستانی فوج کے عہدیدران کے مطابق آپریشن کے لیے عوامی حمایت کے درمیان حائل ہو رہے ہیں۔
شمالی وزیرستان پر حالیہ دڑون حملوں کے سب سے زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کی وجہ سے عوامی رد عمل میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم ابھی ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا کہ آیا امریکا ڈرون حملے روکنے کے پاکستانی مطالبے کو پورا کرے گا یا نہیں۔
ایک اورسنگین مسئلہ پاکستانی طالبان کی افغانستان کے صوبے کنڑ میں پناہ گاہوں کا ہے جہاں سے باجوڑ اور محمند ایجنسیوں میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے جاتے ہیں۔ پاکستان نے اتحادی افواج سے ان پناہ گاہوں کو ہٹانے کے لیے کئی دفعہ کہا ہے تاکہ پاکستان اپنے کچھ دستے باجوڑ اور دیر سے شمالی وزیرستان منتقل کرسکے۔
ایک اور اہم مسئلہ اتحادی افواج کی افغانی حصے میں تعیناتی ہے تاکہ عسکریت پسند آپریشن سے فرار ہو کر سرحد پار پناہ نہ لے سکیں۔ مگر امریکی افواج کے انخلا کے بعد اس بات کے امکان کم ہیں کہ نیٹو دستے جنوبی وزیرستان سے منتقل ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اوربہت بڑا خدشہ یہ لاحق ہے کہ اگر دوسری طرف سے روک تھام نہیں کی گئی تو آپریشن موثر ثابت نہیں ہوگا۔
تاہم سب سے زیادہ اہم بات فوجی مہم کے لیے ملک میں سیاسی اتفاق رائے قائم کرنا ہے۔ عوامی مدد اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت کے بغیر دو ہزار نو میں سوات اور جنوبی وزیرستان میں کیا گیا آپریشن کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔
اور پھر سب سے بڑا سوال سامنے یہ آتا ہے کہ کیا ملک کی موجودہ غیر یقینی سیاسی صورت حال اور افرا تفری کے ماحول میں اس کی حمایت اور اتفاق رائے کی توقع کی جاسکتی ہے؟
کیا عوام اورسیاسی جماعتیں شمالی وزیرستان آپریشن کے لئے تیار ہیں؟
تبصرے (1) بند ہیں