امن مارچ کیوں ہوا؟
عمران خان کا مارچ جس کی بڑی تشہیر ہوئی ختم ہو چکا ہے لیکن یہ اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے کہ آخر اس مارچ کے پیچھے کونسی سیاست کار فرما تھی-
اگر اس مارچ کا مقصد سی آئی اے کے ڈرون حملوں اور ان غیر قانونی اقدامات کے نتیجے میں ہونے والے دو طرفہ نقصانات کے خلاف احتجاج کرنا تھا تو بات سمجھ میں آسکتی ہے لیکن اسے امن مارچ کے نام سے تعبیر کیا گیا جس کی وجہ سے اسکے مقصد کے بارے میں الجھاؤ پیدا ہو گیا ہے.
علاوہ ازیں اس سے پی ٹی آئ کے فہم و ادراک کے بارے میں بھی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ وہ قبایلی علاقوں میں موجود تنازعات اور سیکیورٹی کے انتہائی پیچیدہ نوعیت کے مسائل کو کس نظر سے دیکھتی ہے- امریکہ کے ڈرون حملے اور پاکستانی عوام اور ریاست کے خلاف طالبان کی جنگ دو علیحدہ مسایل ہیں جنہیں جناب عمران خان خلط ملط کر رہے ہیں.
ان کے بیانات کہ طالبان بھی امن کے عمل میں حصہ دار ہیں ان ہزارہا لوگوں کے لئے کسی سنگدلانۂ مذاق سے کم نہیں جو خودکش حملوں اور دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں - لیکن طالبان کو خوش کرنے کی یہ پالیسی اپنے مقصد میں ناکام رہی ہے جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ عمران خان " ایک مغرب زدہ لادین انسان" ہیں -
لیکن عمران خان کی حمایت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے قبایلی علاقوں میں سی آئ اے کی متنازعہ ڈرون جنگ کے خلاف ثابت قدمی کے ساتھ اپنے موقف پرڈ ٹے ہوئے ہیں- حقیقت تو یہ ہے کہ وہ پاکستانیوں کی ایک غالب اکثریت کے جذبات کی نمایندگی کرتے ہیں جو اپنی سرزمین پر پریڈیٹرز کے ظالمانہ حملوں کو نا شایستہ، غیر اخلاقی اورغیرانسانی قراردیتے ہیں .
ان دعووں کے باوجود کہ یہ حملے انتہائی کاملیت کے ساتھ انتہائی اہم نشانوں پر کئے جاتے ہیں، بڑے پیمانے پر ہونے والی شہری ہلاکتوں کے ثبوت روز افزوں تعداد میں سامنے آنے لگے ہیں - اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الا قوامی تنظیموں کی جانب سے ریموٹ کنٹرول ڈرون حملوں کی قانونی حثییت کے بارے میں آے دن سوالات اٹھاۓ جا رہے ہیں.
بلاشبہہ پی ٹی آئ کی ریلی اس تباہ کن مشینی ہتھیار کے مجنونانۂ استعمال کو مزید اجاگر کرنے میں کامیاب رہی ہے جس کے نتیجے میں ماوراۓ عدالت ہلاکتیں رو نما ہوتی ہیں- مارچ میں امریکنوں اور دیگر انسانی حقوق کے نمایندوں کی شرکت سے غیر قانونی ڈرون حملوں کی جانب بین الا قوامی توجہ کو مرکوز کرنے میں مدد ملی ہے-
جیسا کہ پیش بینی کی جا رہی تھی ریلی کو جنوبی وزیرستا ن میں کوٹکئی گاؤں پہچنے سے پہلے ہی روک دیا گیا. جسے ہم نقشے پر ایک علامتی اہمیت قرار دے سکتے ہیں.
ڈرون حملوں کے خلاف عمران خان کی مہم اس وقت تک موثر ثابت نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ایک واضح اورفعال پالیسی پیش نہ کریں جس میں وہ ناکام رہے ہیں-
دراصل طالبان اور نام نہاد جہادیوں کے لئے ان کی ہمدردیوں نے ڈرون حملوں کے خلاف ان کے مقصد کو دھندلا دیا ہے اور خود ان کے حامیوں کو ایک غیر واضح پیغام ملا ہے. دہشت گردی کے اکا دکا واقعات کی مذمت کرنا ناکافی ہے اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایک واضح سیاسی اور نظریاتی فکر پیش کی جاۓ.
طالبان اور دیگر تشدد پسند جماعتیں پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح بغاوت میں ملوث ہیں جن کا قبایلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے-
جنگجویانۂ تشدد پسندی کے نتجے میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے جو ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے لامحدود معاشی نقصانات بھی اٹھانے پڑے -ڈرون حملوں کے مقابلے میں عسکریت پسند ملکی سلامتی کے لئے کہیں زیادہ بڑاخطرہ ہیں .
جنوبی وزیرستان جو پی ٹی آئ کی امن ریلی کی منزل تھا، ڈرون حملوں کے نتیجے میں تباہ نہیں ہوا بلکہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں سینکڑوں، ہزاروں قبائلی اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے.
دراصل بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے خلاف صرف فوجی طاقت کا استعمال ہی واحد حل نھیں ھے لیکن اگر ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہو تو اور کوئی چارہ بھی نہیں-
جنوبی وزیرستان میں فوجی اپریشن دو ہزار نو میں نا گزیر ہو گیا تھا کیونکہ طالبان نے اس علاقے کو دہشت گردی کے حملوں کا گڑھ بنا لیا تھا اور سکیورٹی تنصیبات اور شہریوں پر حملہ کرنے لگے تھے- یہی وہ جگہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ طالبان کے سرغنہ بیت الله محسود نے بینظیرکو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا.
اگر عمران خان کو کوٹکئی جانے کی اجازت دے دی جاتی جو کسی زمانے میں خود کش حملہ آوروں کا تربیتی مرکز تھا تو اب یہ جگه انھیں ویران اور سنسان نظر آتی-
جنگ کی وجہ سے یہاں کی ساری آبادی نقل مکانی پر مجبور ہو گئی- یہاں فوجی آپریشن کو تین سال کا عر صہ گزر چکا ہے لیکن یہ گاؤں اب بھی غیر محفوظ ہے اور اسی لئے یہاں کے لوگ ابھی تک واپس نہیں ہوئے - شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ ریلی کو ٹانک سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی جو قبایلی علاقے کے شروع ہونے سے پہلے کی آخری چوکی ہے.
دو ہزار نو کے فوجی آپریشن کے فورا ہی بعد میں نے کوٹکئی گاؤں کے مرکز میں واقع ایک منہدم عمارت کا ملبہ دیکھا جہاں خود کش بمباروں کو تربیت دی جاتی تھی جسے قاری حسین چلاتا تھا جو طالبان کا انتہائی خوفناک کمانڈر ہے اس مرکز میں سینکڑوں خود کش بمباروں کو تربیت دی گئی جن میں سے اکثر کی عمریں تو دس سے بارہ سال کے درمیان تھیں جنہوں نے پاکستانی شہروں کو تاخت و تاراج کر دیا اور ہزاروں بچوں اور عورتوں کو ہلاک کرنے کے مرتکب ہوئے-
درحقیقت ایسے لوگ جو معصوم بچوں کو انسانی بم کے طور پر استعمال کرتے ہیں امن کے عمل میں کسی طور پر بھی حصہ دار نہیں بن سکتے. عمران خان اکثر اپنے انٹرویوز میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں لیکن ماضی کے تجربوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ عسکریت پسند امن معاہدوں کو صرف مزید وقت حاصل کرنے اور نیے سرے سے منظم ہونے کے لئے استعمال کرتے ہیں-
سوات اور جنوبی اور شمالی وزیرستان اس کی سب سے بڑی مثال ہیں - جب حکومت نے ملا فضل الله کے ساتھ امن معاہدہ پر دستخط کئے تو نتیجے میں سوات کو عملی طور پر طالبان کے حوالے کر دیا گیا- عسکریت پسندوں کو اگرچہ یہاں سے نکال دیا گیا ہے لیکن حکومت کی گرفت ابھی تک کمزور ہے.
اہم سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ کس طرح مذاکرات ہو سکتے ہیں جو یہاں کی آبادی پر بربریت کے ذریعہ اپنے وحشیانہ طور طریقے مسلط کرنا چاہتے ہیں - ریاست ان مذہبی اور سیاسی جنونیوں کے ساتھ کس طرح مصالحت کر سکتی ہے جو اسکولوں پر بمباری کر رہے ہیں اور ان لوگن کے سروں کو اڑا دیتے ہیں جو دنیا کے بارے میں ان کے جاہلانۂ خیالات سے اتفاق نہیں کرتے ؟ پولیو اور دیگر امراض سے بچاؤکی مہم کی انکی مخالفت نے فا ٹا اور پختون خوا کے علاقوں کے ہزارہا بچوں کو خطرات سے دو چار کر دیا ہے .
ملک میں جو رجعت پسندی اور پر تشدد انتہا پسندی فروغ پا رہی ہے اس کے ذمہ دار ڈرون نہیں ہیں - ان دونوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرنا سنگین غلطی ہوگی-
ڈرون حملے اب شمالی وزیرستان تک محدود ہیں جو غیر ملکی جنگجو قوتوں اور پاکستانی عسکریت پسندوں کا اہم گڑھ بن چکا ہے - ڈرون کے استعمال کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس علاقے میں تشدد پسندوں کی پناہ گاہوں کے نتیجے میں علاقائی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے .
تبصرے (1) بند ہیں