دوہزار دو تک پاکستان میں قومی اور صوبائی سطح پر تقریباً دو سو انتالیس مذہبی تنظیمیں کام کررہی تھیں، جن کی تعداد کم ہوکر اب دوسوبتیس تک محدود ہوگئی ہے۔ ان (جماعتوں) کے ایک سے زائد ایجنڈا ہے۔ ان کے مقاصد میں اپنے خیالات کے مطابق معاشرے کو تبدیل کرنا، شرعی قوانین کا نفاذ، خلافت کا قیام ان کے فروعی اور فرقہ وارانہ عزائم کی تکمیل اور تشدد کے ذریعے پاکستان کی نظریاتی اور دفاعی اساس تک رسائی حاصل کرنا ہے۔

اگرچہ (ان تنظیموں سے وابستہ) عمومی رویوں کو سمجھنا قدرے آسان ہے لیکن ان مذہبی تنظیموں کی درجہ بندی اتنی سادہ اور آسان نہیں ہے ، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہ جماعتیں کئی ایک مقاصد پر عمل پیرا ہیں اور وہ یہ کام خود سے کرتی ہیں یا اپنے گروپس اور وابستہ چھوٹی تنظیموں سے یہ عمل کرواتی ہیں۔

بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج ملک میں موجود اکثر مذہبی (سیاسی) جماعتوں کا اب بھی یا کسی نہ کسی طرح ان جماعتوں سے تعلق رہا ہے جو انیس سو پچاس کے عشرے میں سرگرم تھیں۔ ان میں جماعتِ اسلامی، جمیعت علمائے اسلام (جے یوآئی)، جمیعت علمائے پاکستان ( جے یو پی) اور جمیعت اہلِ حدیث وغیرہ شامل ہیں۔

ان میں آل پاکستان شیعہ سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو انیس سو ستر کے عشرے میں تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ کے نام سے ضم ہوگئیں تھیں۔

تقریباً تمام دوسری مذہبی تنظیمیں، خواہ وہ تبلیغ کرتی ہوں، فرقہ وارانہ مقاصد کے لئے سرگرم ہوں، تعلیم یا فلاحی کام سے وابستہ ہوں، یا عسکریت پسندی میں ملوث ہوں ، ان سب نے ان پانچ بڑی جماعتوں یا ان کے دھڑوں سے جنم لیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان سے الگ ہونے والے دھڑے اور دیگر جماعتیں بھی اپنی مرکزی جماعتوں کے ہی ایجنڈے پر یقین رکھتی ہیں۔

ان میں صرف بنیادی  فرق یہ ہے کہ مرکزی اور بڑی جماعتوں کی توجہ ملک میں اسلامائزیشن کے عمل پر ہیں جبکہ ان سے پھوٹنے والی جماعتوں کی معاشرے کو مذہبی بنانے پر عمل پیرا ہیں۔ بڑی جماعتیں اپنے مذہبی ایجنڈے کے ساتھ پاکستان کی مرکزی سیاست میں سرگرم ہیں۔ یہ جماعتیں آئین پر یقین رکھتی ہیں، انتخابات میں حصہ لیتی ہیں، اور دینی سیاسی جماعتوں کے زمرے میں شامل ہیں۔

گزشتہ دو عشروں میں مذہبی تنظیموں کی ایک اور قسم نمودار ہوئی ہے۔ یہ بھی اسلامائزیشن اور معاشرے میں مذہب سے تبدیلی چاہتی ہیں لیکن ان کا یقین ہے کہ اس طرح کی تبدیلی پاکستانی آئین اور موجودہ سیاسی تناظر  میں رہتے ہوئے رونما نہیں ہوسکتی ۔ یہ تنظیمیں سمجھتی ہیں کہ جمہوریت اور جمہوری عمل ان کی اس تبدیلی کے لئے ناکافی ہے جو وہ معاشرے میں چاہتی ہیں۔

ان میں سے بعض تنظیموں، جماعتہ الدعوۃ، حزب التحریر، المہاجرون اور خلافت موومنٹ کا خیال ہے کہ جمہوریت اسلامی اصولوں کے منافی ہے اور وہ اسے اپنے تئیں خود سے وضع کردہ شریعت سے بدلنا چاہتے ہیں۔  جبکہ تنظیم الاخوان اور تنظیمِ اسلامی جیسے گروپس کا خیال ہے کہ جمہوری اور انتخابی عمل کے ذریعے مکمل شریعت نافذ نہیں کی جاسکتی اور اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومتوں کو طاقت کے ذریعے ہٹادیا جائے۔

 ان کا رحجان فرقہ واریت اور عسکریت پسندی کی جانب ہے لیکن ان کا اہم ترین مشن یہی ہے کہ معاشرے کو یکلخت مکمل طور پر تبدیل کردیا جائے ناکہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرح جو سماج میں بتدریج تبدیلی چاہتے ہیں۔

ان تمام جماعتوں کا ایک خاص فرقہ وارانہ رحجان بھی ہے اور وہ اسلام کے دیگر گروہوں سے مخاصمت رکھتی ہیں۔ یا تو وہ اپنے مخالف فرقے سے زبانی جنگ میں مصروف ہیں یا پھر مسلح تصادم اختیار کئے ہوئے ہیں  اور یہ تنظیمیں فرقہ وارانہ جماعتیں بھی کہلاتی ہیں۔ وہ سیاسی اور انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیتیں لیکن عسکری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان میں دیوبندی مکتبِ فکر کی اہلِ سنت والجماعت ( اے ایس ڈبلیوجے) اور لشکرِ جھنگوی ( ایل جے) شامل ہیں جبکہ بریلوی تنظیموں میں سنی تحریک ( ایس ٹی) اور جماعتِ اہلسنت شامل ہیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Mukesh Meghwar Nov 09, 2012 04:58pm
It is Really Very Very Good Write Up about Extremist forces.!! we hope You will keep writing about it.