سینیٹر رظا ربانی۔— فائل فوٹو

اسلام آباد: ایک طرف جہاں وزیر داخلہ رحمان  ملک جمعرات کو سینیٹ کے اجلاس میں کراچی میں طالبان کی موجودگی پر مصر رہے، وہیں ان کے ساتھی اور پی پی پی کے سینیئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے شہر میں امن کے بحالی کے لیے آٹھ تجاویز پیش کی ہیں۔

رحمان ملک گزشتہ روزسینیٹ اجلاس میں اپنی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ملک میں امن و امان بالخصوص کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی صورتحال پر ہونے والی بحث میں اپنی تقریر سمیٹ نہ سکے اور انہوں نے ایوان بالا کے چیئرمین سے آج (جمعہ) اپنی تقریر ختم کرنے کی مہلت طلب کی۔

اپنی تقریر میں وزیر داخلہ نے ایک مرتبہ پھر کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ ورانہ وارداتوں کے پیچھے ' بیرون اور مقامی عانصر' کے ہاتھ کے ملوث ہونے کی جانب اشارہ کیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے وہ رہنما جنہوں نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ وہ رحمان ملک کی سینیٹ میں تقریر نہیں سنیں گے اور جنہوں نے وزیر اعظم سے سینیٹ میں آ کر بیان دینے کا مطابلہ کیا تھا، حیرت انگیز طور گزشتہ روز نہ صرف اجلاس میں موجود رہے بلکہ انہوں نے وزیر داخلہ کی تقریر پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔

رحمان ملک نے اپنی تقریر میں کہا کہ کراچی پہلی مرتبہ مشکل کا شکار نہیں ہوا اور ماضی میں حکام کی جانب سے پولیس، رینجرز اور حتٰی کے فوج کے ذریعے ہونے والے آپریشنز سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے۔

اس موقع پر انہوں نے ایک مرتبہ پر سینیٹ چیئر مین سے 'ان- کیمرہ' اجلاس منعقد کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ سینیٹرز کو کراچی میں گرفتاریوں کے حوالے سے 'آگاہ' کر سکیں۔

آٹھ تجاویز

اس سے قبل ، بحث میں حصہ لینے والے آخری شریک سینیٹر رضا ربانی نے کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے لیے آٹھ تجاویز پیش کیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ ' دہشت گردی کی واردتوں میں ملوث گرفتار ملزمان کو تھانوں سے ہرگز رہا نہ کیا جائے اور یہ کہ ان کی رہائی کے احکامات صرف مجازعدالت سے آنے چاہیں'۔

'گرفتار ملزمان کو چوبیس گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے اور صوبائی حکومت آئین کی شق دس اور دس – اے کے تحت ملزمان کا منصفانہ ٹرائل یقینی بنائے'۔

رضا ربانی کی تجویز سیکورٹی اداروں کے اِن تحفظات کے بعد سامنے آئی ہے  جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ملزمان کو محض ایک فون کال کے ذریعے ڈالے جانے والے سیاسی دباؤ کی وجہ سے چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

سینیٹر نے اس موقع پر سندھ پولیس کو موبائل فون ٹریکنگ کا نظام، سیکورٹی اداروں کے درمیان بہتر ہم آہنگی اور شہریوں اور پولیس کے درمیان رابطہ کمیٹیوں کومزید موثر بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس افسران کی تعیناتیوں میں سیاسی دباؤ ہرگز برداشت نہ کیا جائے۔

گزشتہ ماہ بلوچستان مسئلے کو حل کرنے کے لیے پانچ نکات پیش کرنے والے سینیٹر ربانی  نے صوبائی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت اقدامات کے لیے اتفاق رائے پیدا کرے۔

انہوں نے تجویز دی کہ شہر میں نصب سیکورٹی کیمروں کی تعداد میں اضافہ کر کے ان کا معیار بہتر بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت صوبائی اسمبلی کی سطح پر تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی کمیٹیاں تشکیل دے اور انہیں کراچی کے مختلف علاقوں میں امن برقرار رکھنے کی ذمہ داریاں سونپے۔

تبصرے (0) بند ہیں