بے مقصد مذاکرات
دہشت گردی جرائم کی انتہائی شکل ہے اور جرائم پیشہ سے مذاکرات نہیں کیے جاتے لیکن بعض سیاسی رہنما نہایت ڈھٹائی سے مشورہ دے رہے ہیں کہ ریاست ہتھیار ڈال کر اُن مجرموں سے مذاکرات کرے جو خودکش حملے کر کے ہزاروں پاکستانیوں کو قتل کرچکے، جنہوں نے فوجیوں کے سرقلم کیے اور اسکولوں پر بم حملے کر کے انہیں ملبے کا ڈھیربنا ڈالا۔
یہ صرف خام خیالی ہوسکتی ہے کہ تشدد کو تسلیم کرلینے سے امن قائم ہوسکتا ہے۔
اگرچہ پاکستانی طالبان کے بارے میں، ان میں سے بعض کا رویہ یکسر ہمدردی اور معذرت خواہانہ انداز لیے ہوئے ہے تاہم دیگر خوف دسے جنم لینے والی مفاہمت کی پالیسی پر زور دے رہے ہیں۔
خود کو دھوکا دینے کے اس عمل کے نتائج پورے ملک کے لیے نہایت بھیانک ثابت ہوں گے۔
جہاں تک پاکستانی طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کا تعلق ہے تو وہ تششد کے خاتمے میں مخلص نظر نہیں آتے بلکہ یہ چال اپنی حاکمیت تسلیم کرانے اور عوامی سطح پر ا تاثر بہتر بنانے کا حربہ ہے۔
ان کی پشت پر نہایت مہلک اور سنگین ترین دہشت گرد حملوں کا ایک پورا سسلسلہ موجود ہے، حتیٰ کہ ان میں وہ حملہ بھی شامل ہے جس میں خیبر پختون خواہ کے سینئر وزیر بشیر بلور کو ہلاک کردیا گیا تھا۔
حتیٰ کہ مذاکرات کی پیشکش سے صرف چند روز قبل عسکریت پسندوں نے لکی مروت کی چیک پوسٹ پر حملہ کر کے تیرہ فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ انہوں نے مذاکرات کی پیشکش اپنی شرائط پر کی ہے۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے اپنی پُرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ روکنے سے انکار کیا بلکہ مذاکرات کرنے کے لیے اپنی شرائط بھی پیش کی ہیں۔
ایک شرط یہ بھی ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے تین سینئر کمانڈروں کو رہا کردیا جائے۔ یہ تینوں کمانڈر سوات میں باغیانہ کارروائی کے خلاف آپریشن کے دوران پکڑے گئے تھے اور وہاں انہوں نے ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
اس ضمن میں وزیر داخلہ رحمان ملک نے درست قدم لیا۔ انہوں نے نہ صرف مذاکرات کی پیشکش کو خارج کیا بلکہ اسے غیر سنجیدہ اقدام اور لطیفہ قرار دیا۔ واقعی یہ بڑا بھونڈا مذاق لگ رہا ہے۔
وڈیو ٹیپ کے ذریعے مذاکرات کی پیشکش کا یہ پیغام تحریکِ طالبان پاکستان کے بدنامِ زمانہ ترجمان احسان اللہ احسان نے دیا جن کے برابر عدنان رشید بیٹھا تھا۔ عدنان کو سزائے موت سنائی جاچکی تھی مگر طالبان نے گزشتہ برس باجوڑ جیل پر بدترین حملہ کر کے اسے فرار کرالیا تھا۔
احسان اللہ وہی شخص ہے جو دہشت گرد تنطیم کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملوں، فوجیوں کو ذبح کرنے اور اعلیٰ شخصیات کو دہشت گرد تنطیم کی طرف سے قتل کرنے کی ذمہ داریاں قبول کرتا رہا ہے۔
ابھی بہت دنوں پہلے کی بات نہیں ہے، جب اس نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کا جواز بیان کرتے ہوئے حکم صادر کیا تھا کہ اسلامی شرعی قوانین کی رو سے وہ واجب القتل ہے۔ ملالہ کو خوف ہے کہ اگر وہ لوٹ کر آئی تو قتل کردی جائے گی۔
اب ایسوں کی طرف سے قیامِ امن کی پیشکش آنا نہایت ہی حیران کُن بات ہے۔
حکومت اور فوج پر اپنے مکمل عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے تین سیاسی جماعتوں کا نام لے کر یہ بھی شرط عائد کی وہ مذاکرات میں بطور ضامن شریک ہوں اور دوسرے فریق کی طرف سے عمل درآمد کی ضمانت فراہم کریں۔
تو اب اگر ان کا مذاکرات کے دو بڑے فریقین، وفاقی حکومت اور فوج پر، مکمل عدم اعتماد ہے تو پھر وہ کس سے بات کون کریں گے؟ عدم اعتمادی کی اس فضا میں کس طرح مذاکرات کی اس پیشکش کو سنجیدگی سے لیا جاسکتا ہے؟
جماعتِ اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام ۔ ف کی طرف سے مذاکرات کی حمایت کو کوئی بھی با آسانی سمجھ سکتا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں طویل عرصے تک عسکریت پسندوں کی ہمدرد رہی ہیں۔ ان دو اسلام پسند مذہبی جماعتوں کے کئی عہدیدار اور کارکن اب بھی عسکریت پسندوں کے مختلف گروہوں میں سرگرم ہیں۔
یہ خیبر پختون خواہ میں متحدہ مجلسِ عمل کا ہی دورِ حکومت تھا، جب صوبے میں طالبانائزیشن نے جڑیں مضبوط کرنا شروع کیں اور اب جمعیت علمائے اسلام ۔ ف اور جماعتِ اسلامی کی قیادت پر خودکش حملوں سے بھی انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔
تاہم سب سے زیادہ افوسناک بات نواز شریف کی طرف سے مذاکرات کی حمایت تھی۔
اس حقیقت کے باوجود کہ خیبر پختون خواہ کے بعد پنجاب، طالبانی تششد کا سب سے بڑا ہدف ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ نون نے مفاہمانہ رویہ اپناتے ہوئے انہیں پنجاب میں کھلے عام دندنانے کی چھوٹ دے دی ہے۔
وسیع پیمانے پر پھیلی دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے ملک کو جو خطرات لاحق ہیں، انہیں ختم کرنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی ضرورت ہے لیکن نواز شریف کی پاکستان مسلیم لیگ نون کی طرف سے اس کی زوردار مخالفت، قومی اتفاقِ رائے کے قیام میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
شطر مُرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر خطرہ ٹل جانے والا یہ مصالحانہ رویہ اس لیے ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں دائیں بازو والے نظریات کا ووٹ حاصل کرسکیں تاہم اس کی بہت بڑی قیمت ان کی جماعت اور ملک کو ادا کرنی پڑے گی۔
مشکل سے ہی شاید کوئی ایسی نظیر ملے کہ جب کسی ریاست نے ایسے دہشت گردوں سے مذاکرات کیے ہوں جو اپنے عالمی نظریات کو سفاکانہ قوت کے ذریعے پوری دنیا پر نافذ کرنے کی سوچ رکھتے ہوں۔
شمالی آئر لینڈ کے قوم پرستوں سے برطانیہ اور افغان طالبان سے امریکا کے مذاکرات کی مثالوں کا اطلاق، پاکستانی طالبان سے حکومت کے مذاکرات پر نہیں کیا جاسکتا۔
شمالی آئر لینڈ میں قوم پرستوں کی جدوجہد سیاسی شراکت اور مربوط جمہوریہ آئرلینڈ کے لیے تھی۔ گڈ فرائیڈے معاہدہ کے تحت آئرش ری پبلکن آرمی تحلیل کردی گئی اور قوم پرست اس بات پر رضامند ہوگئے کہ وہ برطانیہ کے ساتھ سیاسی عمل میں حصہ لیں گے۔
اسی طرح، امریکا کے معاملے میں بھی رخ کچھ اور ہی ہے۔ امریکا، جنگ زدہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلا سے پہلے، وہاں سیاسی استحکام کے لیے افغان طالبان سے مذاکرات کا خواہاں ہے۔
لیکن پاکستان میں نہ تو غیر ملکی افواج ہیں اور نہ ہی تحریکِ طالبان پاکستان جمہوری حقوق کے لیے لڑرہی ہے۔ پاکستانی طالبان نے تششد کا جو الاؤ بھڑکایا ہے، حقیقت میں تو وہ ملک کے جمہوری عمل کے لیے ہی نہایت خطرناک ہے۔
اس وقت جو پاکستانی طالبان سے مذاکرات کی حمایت کررہے ہیں شاید وہ یہ بھول چکے کہ سن دو ہزار آٹھ اور نو میں، عسکریت پسندوں سے کیے گئے سوات امن معاہدے کا کیا حشر ہوا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ میں جیلوں سے طالبان رہنماؤں کو رہا کیا گیا اور انہوں نے وادی میں پلٹ کر مخالفین کا قتلِ عام شروع کردیا تھا۔
انہوں نے سن دو ہزار نو کے امن معاہدے کو دوسرے علاقوں تک تششدد کے پھیلاؤ کے واسطے استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں بھرپور فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ اور اب ہم یقینی طور پر ان بھیانک تجربات کو ہرگز دُہرانا نہیں چاہتے۔
اس وقت جو سب سے گنھاؤنی بات ہے، وہ مرکزی سیاسی دھارے میں شامل بعض سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی جانب سے عسکریت پسندوں کی لیپا پوتی ہے۔ بعض صحافی حقیقت میں ان کے پیغام بر ہیں جو ٹی وی مذاکروں میں ان کے ترجمان کے انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔
کچھ اخبارات شاید لاعلمی میں ان کے حامی بن کر، ان کے لیے ایک اوزار بن چکے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو اپنے اپنے اخباروں کے صفحہ اوّل پر ان دہشت گردوں کی تصاویر اور بیانات نمایاں انداز سے شائع کرتے ہیں۔
کسی دوسرے ملک میں، جو اس طرح کی صورتِ حال کا شکار ہوں، وہاں دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو اس طرح کی تشہیر فراہم کرنے کا کبھی نہیں سنا۔
عسکریت پسند تحریکِ طالبان پاکستان کو ذرائع ابلاغ پر اس طرح کی تشہیر ملنے سے اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ یہ تشہیر درحقیقت ریاست کی طرف سے عسکریت پسندی کی لعنت کے خلاف موثر حکمتِ عملی کی تشکیل میں ناکامی کی قومی داستان سناتی ہے۔
مفاہمانہ رویوں پر مبنی حکمتِ عملی سے نہ تو ماضی میں کچھ حاصل ہوا اور نہ ہی مستقبل میں اس کا کوئی نتیجہ مستقبل نکل سکے گا۔
دہشت گردوں سے مذاکرات اُن ہزاروں معصوم اور بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کے خون کا سودا کردینے کے مترادف ہوگا جو ان کے ہاتھوں بھڑکائے گئے تششد کے الاؤ میں جل کر بھسم ہوچکے۔
اگر ہم نے طالبانی شرائط پر ان سے مذاکرات کیے توعسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں ہم نے اب تک جو کچھ بھی حاصل کیا، وہ سب کچھ کھو بیٹھیں گے۔
مضمون نگار مصنف اور صحافی ہیں۔ zhussain100@yahoo.com Twitter: @hidhussain
ترجمہ: مختار آزاد