سلامتی بذریعہ مفاہمت

شائع March 27, 2013

پاکستان تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان -- فائل فوٹو
پاکستان تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان -- فائل فوٹو

پاکستان اس وقت مختلف محاذوں پر اپنے آپ سے جنگ لڑرہا ہے۔ یہ صرف اُس کی روح کے لیے ہی نہیں بلکہ وجود کے لیے ہے لیکن جب یہ تعین نہ ہوسکے کہ دشمن کون ہے اور خوف ہو کہ لڑے تو مفلوج ہوجائیں گے، سمجھو جنگ آدھی ہاری جاچکی۔

حال ہی میں جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے، طالبان سے مذاکرات کے لیے منعقدہ کُل جماعتی کانفرنس حقیقت میں ہتھیار پھینکنے کے معاہدے پر دستخط کے مترادف تھی۔

کمزور قیادت اپنے لیے سلامتی کی خریدار تھیں، رہے عوام تو انہیں دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔

تحریکِ طالبان پاکستان سے غیر مشروط بات چیت کی حمایت کے اس اعلان کو ہفتہ بھر بھی نہیں ہوا تھا کہ دہشت گردوں نے دوبارہ آگ و خون کا کھیل شروع کردیا۔ کراچی میں نہایت شدید دھماکے سے پوری رہائشی عمارت اڑادی گئی، جس کے غالب مکین شیعہ کمیونٹی سے تھے۔

ان گنت مردوں، عورتوں اور بچوں کو قہر کا نشانہ بنانے والے، کسی نے بھی اس بربریت کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن قدموں کے نشانات تحریکِ طالبان پاکستان اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے ذمہ دار گروہوں کی طرف جارہے تھے۔

اب ان کی طرف مفاہمت کے قدم بڑھے تو یہ نہ صرف اور مزید بے گناہوں کی زندگیوں پر موت کا نشان لگائیں گے بلکہ اس سے ملک کو بھی عدم استحکام کی طرف دھکیلا جائے گا۔

نہ صرف کانفرنس نے نام نہاد امن مذاکرات کے لیے طالبان کی پیش کردہ شرائط پر اتفاق کیا بلکہ قتل اور غارت گری کے ذمہ داروں کے لیے لفظ 'دہشت گردی' کو ہی (قرارداد سے) خارج کردیا۔

دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ہزاروں انسانوں کے قتل کو 'لاقانونیت' میں تبدیل کردیا گیا۔ ساتھ ہی خود کش حملوں اور اُن سکیورٹی اہلکاروں کے سرقلم کیے جانے کو بھی 'ہضم' کرلیا گیا، جن کی ذمہ داری وہ خود قبول کرتے رہے علی الاعلانیہ۔

کانفرنس کے اعلامیہ سے زیادہ کوئی اور احمقانہ بات کیا ہوسکتی ہے کہ اس نے عسکریت پسند تشدد کا سارا معاملہ سمیٹ کر، اسے صرف طالبان اور فوج کے درمیان لڑائی کا نام دے دیا۔ امن کے لیے، قرارداد نے قرار دیا کہ دونوں کے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور اس کے اتحادیوں نے ریاستِ پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے مگر کانفرنس کے شرکا نے طالبان کے لیے حمایت کے جوش میں سب کچھ پسِ پشت ڈال دیا تھا۔

کُل جماعتی کانفرنس کے پانچ نکاتی اعلامیہ سے محسوس یہی ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے عسکریت پسندوں کے خلاف فاٹا میں جاری فوجی آپریشن سے خود کو دور کرلیا ہے۔

اب تک ہزارو فوجی اُن عسکریت پسند قوتوں سے لڑتے ہوئے اپنی جانیں نچھاور کرچکے، جنہوں نے نہ صرف علاقے کو دہشت گردی کا ایک نیا مرکز بنا کر پورے ملک، بلکہ خطّے کی سلامتی کو بھی خطرات سے دوچار کردیا ہے۔

اس سے بڑی غداری کیا ہوگی کہ تششد اور اس کے اُن ذمہ داروں کو تسلیم کرلیا جائے جو ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل ہیں۔ اس بات پر کوئی حیرانی نہیں کہ طالبان نے کُل جماعتی کانفرنس کے اُس اعلامیہ کا خیر مقدم کیا، جو درحقیقت اُن کی پیش کردہ شرائط کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔

کوئی بھی طالبان کے دفاع میں جے یو آئی ۔ ف اور دیگر دائیں بازو کی اسلامی جماعتوں کا موقف با آسانی سمجھ سکتا ہے۔ انہوں نے ہی اس ملک میں عسکریت پسندی کی آوازیں عام کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے اس اعلامیہ کی حمایت کسی دھچکے سے کم نہ تھی۔

اگرچہ حکومت کی طرف سے اس اعلامیہ کی رسمی منظوری تو نہیں دی گئی تھی، تاہم اُس وقت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کی طرف سے کانفرنس میں شرکت اس بات کی خاموش رضامندی تھی کہ وہ 'امن مذاکرات' کی حمایت کرتی ہیں۔

ملک اس وقت شدید دہشت گردی کے خطرات سے نبرد آزما ہے اور ان حالات میں سبکدوش ہونے والی حکومت کا عسکریت پسندوں سے نہ لڑنے کے ارادے نے بہت بڑے پیمانے پر ابہام پیدا کیا تھا۔

طالبان سے امن مذاکرات کے لیے، فوری طور پر خیبر پختون خواہ کے نئے گورنر کی نگرانی میں گرینڈ جرگہ تشکیل دیا گیا تھا، جس سے امکان تھا کہ مذاکرات کے آغاز کے لیے حکام کی کچھ پابندیاں بھی شاملِ حال تھیں۔

اگرچہ فوجی قیادت کی طرف سے ردِ عمل نہ ہونے کے باعث مذاکرات تو شروع نہ ہوسکے، تاہم نظر یہ آتا ہے کہ کُل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے کا دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے سکیورٹی ایجنسیز کے اقدامات پر بُرا اثر پڑا ہے۔

امن مذاکرات کی پیشکش کے بعد کراچی، پشاور اور خیبر پختون خواہ کے دیگر حصوں میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں ان کی سخت گیری اور رحمی کی واضح مثالیں ہیں۔

یہ بات یقینی ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور اُن فرقہ وارانہ تنطیموں میں گٹھ جوڑ ہے جو پورے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شیعوں کے قتل کی ذمہ دار ہیں۔

جو بات امن کی اس پیشکش کو غیر منطقی بناتی ہے وہ یہ کہ اگر اس کا نفاذ ہوا تو مستقبل کی حکومت بھی اس کی پابند ہوگی۔ اس طرح کی ضمانتیں یقینی طور پر ناقابلِ عمل ہیں۔ تاہم یہ عسکریت پسندوں کو ایک موقع ضرور فراہم کرتی ہیں کہ اس دوران وہ خود کو مزید توانا کرلیں۔

اس بات کا امکان ہے کہ ایسے وقت جب انتخابات سامنے ہوں، اس طرح کی کانفرنس سے طالبان کو مفاہمت کا پیغام دینا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران پُرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ روک دیں لیکن اب تک اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، بالخصوص ان جماعتوں کے حوالے سے جو براہ راست طالبان کی ہِٹ لِسٹ پر موجود ہیں۔

عسکریت پسندوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ اے این پی، ایم کیو ایم اور پی پی پی کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گی، بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ تینوں جے یو آئی ۔ ف کی کُل جماعتی کانفرنس کے اعلامیہ پر دستخط کرنے والی جماعتیں ہیں۔

بلاشبہ، اے این پی خیبر پختون خواہ میں عسکریت پسندوں کی پُرتششد کارروائیوں سے بُری طرح متاثر ہوئی ہے، تاہم اب وہ اپنے سینئر رہنماؤں کے قتل کے بعد کمزور پڑتی نظر آرہی ہے۔

حقیقت میں مفاہمت کے ذریعے سلامتی حاصل کرنے کی یہ کوشش قابلِ عمل نہیں۔ اس کے بجائے، اِس عمل سے مذید عدم تحفظ پھیلے گا۔

طالبان اور ان کے اتحادی نام نہاد امن مذاکرات جیسے طریقوں سے اپنے لیے مزید وقت حاصل کر کے خود کو مستحکم اور دیگر علاقوں تک پھیلانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ وہ ماضی میں بھی کرچکے ہیں۔

امن مذاکرات کا کوئی امکان نہیں البتہ اس طرح کے اعلامیوں سے سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان خلیج مزید بڑھے گی جس کے تباہ کُن بھیانک اثرات دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف، پاکستان کی جنگ پر مرتب ہوں گے۔ حالانکہ یہ بات یقینی ہے کہ سکیورٹی فورسز سیاسی پشت پناہی کے بغیر، دشمن سے لڑ نہیں سکتی ہیں۔

کثیر الجماعتی کانفرنس سے اس بات کا بھی اظہار ہوا کہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے موثر حکمتِ عملی کی تشکیل میں، سیاسی اور فوجی قیادتی تقسیم ہیں، نیز اس اعلامیہ نے انہیں مزید متاثر کیا۔

اگرچہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں، جو یہ سمجھتی ہیں کہ بلا خوف و خطر آگے بڑھ سکتی ہیں مگر وہ بھی ہتھیار ڈالنے کی پالیسی پر چل پڑی ہیں۔

عسکریت پسندی کے خلاف فوج کے متضاد جذبات اور شدت پسندی کے ذرائع نے اس وقت (دہشت گردی کے خلاف) پالیسی سازی کے عمل کو مفلوج کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کے سبب عسکریت اور شدت پسندی کی لعنت سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے، قومی سطح پر متفقہ رائے عامہ کے قیام میں ناکامی کا سامنا ہے۔


مضمون نگار صحافی اورمصنف ہیں۔ zhussain100@yahoo.com Twitter: @hidhussain ترجمہ: مختار آزاد

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 6 جولائی 2025
کارٹون : 5 جولائی 2025