آٹھواں دن: مصائب کی سنگ باری
آٹھواں دن: مصائب کی سنگ باریمقامات: رتّو چاہ، ڈھنڈوٹ، چوا سیدن شاہ، کلرکہار
میں 'مٹی سے اٹے غریب' اور 'انتہائی مشقت' جیسے الفاظ ماضی میں استعمال کرتا آیا ہوں، لیکن پتھر توڑنے والے کان کنوں سے ملاقات کے بعد اب شاید انہیں دوبارہ استعمال کرنا میرے لیے ممکن نہ رہے۔
وہ بہت ملنسار تھے اور میں نے سوچا کہ اگلا پورا دن ڈھنڈوٹ میں جپسم کے پہاڑوں کو کاٹ کر روڑی پتھر میں تبدیل کرنے والے، ان جفاکشوں کے ساتھ سیاست پر گفتگو کرتے گزاروں گا۔
ان سے پہلی ملاقات کے بعد میں واپس رات گزارنے کے لیے اپنے ٹھکانے کی جانب روانہ ہو گیا جو جپسم کی ان کانوں سے لگ بھگ تیس کلومیٹرکی دوری پر تھا۔ اگلی صبح طے شدہ وقت یعنی سات بجے ٹھیک میرے وہاں پہنچنے پر وہ بہت حیران ہوئے۔
وہ میری آمد سےپہلے ہی اپنا کام شروع کرچکے تھے۔ ان کا ہدف پہاڑوں سے جپسم کے پتھر تلاش کرنا، نکالنا اور پھر ہتھوڑوں کی مدد سے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑنا تھا۔
جپسم کے بھاری ذخائر اپنے اندر پوشیدہ رکھنے والے ان پہاڑوں اور مٹی کا رنگ سرخ مائل ہے۔
یہاں جپسم کے ذخائر رکھنے والے پہاڑی علاقے کا ایک حصہ حکومت نے کامیاب بولی دینے والے کو لیز پر الاٹ کیا تھا، جسے اس نے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے، ٹھیکے داروں کو دے دیا۔
یہ ٹھیکے دار دراصل چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کای کرنے والے لیبر منیجر کے طور پر کام کرتے ہیں۔
یہ پورا کاروبار چھوٹے ٹھیکے داروں کی ایک زنجیر کی صورت چلتا ہے تاکہ سارے خطرات اس زنجیر کی سب سے کمزور کڑی یعنی مزدور پر ڈالے جا سکیں۔
اور یہی معاملہ دوسرے انتہائی مشقت والی معاشی سرگرمیوں کا بھی ہے۔ دوسرے مشقتی شعبوں میں زیادہ تر نقصانات محض مالی سطح تک محدود ہوتے ہیں لیکن کان کنی میں ہر گھڑی ان مزدوروں کی زندگیاں خطرات میں گھری رہتی ہیں۔
یہ ایک نہایت خطرناک کام ہے۔ مزدور پہاڑوں کے نہایت خطرناک سِروں تک جاتے ہیں اور بنا کسی حفاظتی اقدامات کے چٹان کے ساتھ لٹکتے ہوئے اپنا کام سرانجام دیتے ہیں۔
وہ صرف ایک ہی حفاظتی قدم اٹھا سکتے ہیں جو 'بتّی' کے سِرے کو شلعہ دکھانے سے قبل، چلا چلا کر دوسروں کو اس سے خبردار کرنا ہے۔
اسی طرح کی ایک وارننگ کے دوران میں نے حفاظتی آڑ میں ریاض سے اس موضوع پر بات چیت کی۔
وہاں گھومتے پھرتے میں نے کئی مزدوروں سے سیاست اور آنے والے الیکشن کے حوالے سے گفتگو کی۔ چھ مزدوروں پر مشتمل اس پارٹی نے مجھے ہنستے ہوئے اپنے پاس آنے کی دعوت دی۔ شاید وہ ہاتھ میں کیمرا تھامے 'بابو' کی ہمت آزمانا چاہتے تھے۔
میں جانتا تھا کہ اوپر چڑھنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا لیکن ان پھسلواں چٹانی ڈھلوانوں سے نیچے اترنا ہرگز آسان نہیں۔
پھر بھی میں نے یہ کر دکھایا اور انعام کے طور پر انہوں نے مجھے چائے پیش کی۔
روایتی طور پر وہ پی پی پی کے حامی تھے لیکن اب ان کا کہنا تھا کہ 'بس بھئی اب بہت ہوچکا'۔
ایک کا اصرار تھا کہ اس بار عمران خان کو موقع ضرور ملنا چاہیے۔ میرے لیے اہم بات یہ تھی کہ ان لوگوں کی نظروں میں سیاست کا فائدہ صرف اتنا ہے کہ ان کے گاؤں کو بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات میسر آسکیں۔
میرے لاکھ کریدنے کے باوجود وہ بطور مزدور انتخابی یا پارٹی سیاست کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد سے منسلک کرنے میں ناکام رہے۔
مباحثہ دیکھیے:
ان میں سے ایک مزدور کے الفاظ میں، والدین کے بعد ان کا صرف اہک ہی ہمدرد ہے اور وہ ہے ایک چھوٹی سی مقامی تنظیم 'انجمنِ رفاہ عامّہ'۔اس تنظیم نے مزدوروں کو اُن کے حقوق سے آگاہی دینے، ان کی اپنی یونین تشکیل دینے اوراسے قانون کے تحت رجسٹرڈ کرانے میں مدد فراہم کی تھی۔
اس تنظیم کو وہ اپنے مقامی لب و لہجے میں 'رفامہ' پکارتے ہیں۔ یہ ایسی مقامی این جی او ہے جسے بعض عالمی این جی اوز کی معاونت حاصل ہے۔
لہٰذٓا یہ گٹھ جوڑ، جسے مرکزی سیاسی دھارے کی سیاسی جماعتیں اور میڈیا بھی، ناپاک تصور کرتے ہیں، اپنی وہ سیاسی ذمہ داری نبھارہے ہیں جن سے جماعتیں کنی کترا کر نکل جاتی ہیں۔
یہ اُن نادر مواقعوں میں سے ایک تھا کہ جب مجھے این جی او شعبے کے ساتھ اپنی رفاقت پر فخر محسوس ہوا۔
اکرم مزدور یونین سازی اور اس کے فوائد کے حوالے سے بہت کھلے انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ اکرم سے میری ملاقات ان کے گاؤں میں ہوئی تھی جو ان کانوں کے پاس ہی موجود تھا۔
میں نذیر سے بھی ملا جو پہاڑ پر ایک اونچی جگہ پرکھڑا کٹائی کے لیے مناسب پتھر تلاش رہا تھا۔
اگرچہ ابھی یونین کے انتخابات ہونے ہیں لیکن سب ہی اسے اپنی یونین کا صدر کہتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کسی بھی امیدوار کو کن بنیادوں پر ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں