تھائی لینڈ : پرتشدد مظاہرے، انتخابات ملتوی ہونے کا خطرہ
بنکاک: تھائی لینڈ میں جاری پرتشدد احتجاج میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت اور درجنوں افراد زخمی ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے جمعرات کو حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فروری میں ہونے والے انتخابات ملتوی کردے۔
تھائی لینڈ کی وزیرِ اعظم ینگلک شنو وا کے سامنے ہفتوں سے جاری احتجاج ایک نیا بحران بن چکا ہے کیونکہ لوگ سڑکوں پر آکر یہ مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ حکومت پر وزیرِ اعظم کے خاندان کی اجارہ داری اور اثر و رسوخ ختم کیا جائے گا۔
یہ سیاسی بحران بینگاک کی مڈل کلاس اور اشرافیہ اور دیگر عوام کے درمیان خلیج کی وجہ بھی بنا ہوا ہے کیونکہ وزیر اعظم بینگاک کے چھوٹے بھائی تاکسن شنو وا کو حکومت میں مرکزی اثر ورسوخ حاصل ہے ۔ واضح رہے کہ تاکسن کو سال 2006 میں وزارتِ عظمیٰ سے بے دخل کیا گیا تھا اور ان کی حکومت فوجی مداخلت سے ختم کی گئی تھی۔
احتجاجی مظاہرین موجودہ وزیرِ اعظم ینگلک کی حکومت ختم کرکے اس کی جگہ ایک غیر منتخب ' عوامی کونسل' کو حکومت دینا چاہتے ہیں ۔ ان کا الزام ہے کہ ارب پتی تاجر اور بعد میں سیاست دان بننے والے ( ان کے بھائی) دبئ میں جلا وطنی کے دوران اپنی بہن کی حکومت پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ جمعرات کو ہونے والے احتجاج میں پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس ربڑ کی گولیاں فائر کیں۔ اس سے قریب ہی ایک اسٹیڈیم میں تیس سیاسی جماعتوں کے نمائیندے جمع تھے جو دو فروری کے مجوزہ اور متنازعہ انتخابات میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے تھے ۔
مظاہروں اور جھڑپوں میں دونوں اطراف کے 100 افراد زخمی ہوئے جن کی تصدیق ایمرجنسی سروسز نے کی ہے۔ تقریباً 25 پولیس اہلکاروں کو ہسپتالوں میں لایا گیا ہے جن میں سے دس کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ ایک پولیس افسر فائرنگ کی ذد میں آکر ہلاک ہوا ہے۔
پولیس جنرل ہسپال کے ڈائریکٹر جونگجیٹ آواجن پونگ نے کہا ،' اس کے سینے میں گولی لگی تھی اور اسے ہسپتال لایا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کی ٹیم نے نصف گھنٹے تک اسے بحال کرنے کی کوشش کی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا۔'
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے بھی غیر معینہ مدت کیلئے انتخابات ملتوی کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
' ہم موجودہ صورتحال میں ملک میں آئین کے تحت آزادانہ اور شفاف انتخابات نہیں کراسکتے ،' کمیشن کے رکن پراوت رتنا پائن نے کہا۔ گزشتہ دو عشروں سے الیکشن میں مسلسل شکست کھاتی ہوئی مرکزی اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی فروری انتخابات کے بائیکاٹ پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب تھائی حکومت نے اب تک کسی خاص ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ تاکسن کو ہٹانے کے بعد تھائی لینڈ میں سیاسی استحکام نہ آسکا اور اب تک وہ سیاسی ہلچل کا شکار ہے۔
ان کے حامیوں نے مظاہرین پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے احتجاج سے فوج کو دوبارہ اقتدار پر قبضے کی دعوت دے رہے ہیں۔
تھائی لینڈ میں 1932 کے بعد سے اب تک اٹھارہ مرتبہ فوجی بغاوت ہوئی ہے یا پھر فوج نے حکومت کا تختہ الٹا ہے۔
حکومتی حلقوں نے الزام لگایا ہے مظاہرین پر امن نہیں اور نہ ہی غیر مسلح ہے اور پولیس نے بھی براہِ راست فائرنگ ( اصلی کارتوس) کا انکار کیا ہے۔
موجودہ وزیرِ اعظم کو دیہی علاقوں اور مزدوروں کی حمایت حاصل ہے لیکن اشرافیہ اور امیر طبقہ ان کیخلاف ہے۔