ڈرون کے خلاف احتجاج پاکستان کو دنیا میں تنہا کردے گا: نواز شریف

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2013
دفترِ خارجہ کے نئے بلاک کا افتتاح کرنے کے بعد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ”ہماری کوشش ہے کہ موجودہ دوستانہ تعلقات کو ایک دوسرے کے لیے مفید شراکت داری میں تبدیل کیا جائے۔ ہم ایک گلوبلائزڈ ورلڈ میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں کوئی بھی کسی بھی سطح پر تنہائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ —. فوٹو پی پی آئی
دفترِ خارجہ کے نئے بلاک کا افتتاح کرنے کے بعد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ”ہماری کوشش ہے کہ موجودہ دوستانہ تعلقات کو ایک دوسرے کے لیے مفید شراکت داری میں تبدیل کیا جائے۔ ہم ایک گلوبلائزڈ ورلڈ میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں کوئی بھی کسی بھی سطح پر تنہائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ —. فوٹو پی پی آئی

اسلام آباد: وزیراعظم نوازشریف نے کل بروز جمعہ ستائیس دسمبر کو ڈرون مخالف احتجاج میں مصروف اپنے سیاسی حریفوں کو اشارتاً خبردار کیا کہ ان کا یہ احتجاج ملک کو بین الاقوامی میدان میں تنہائی کی جانب دھکیل رہا ہے اور انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت دوسرے ملکوں کے ساتھ امن اور دوستی کی خواہش رکھتی ہے۔

دفترِ خارجہ کے نئے بلاک کا افتتاح کرنے کے بعد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ”ہماری کوشش ہے کہ موجودہ دوستانہ تعلقات کو ایک دوسرے کے لیے مفید شراکت داری میں تبدیل کیا جائے۔ ہم ایک گلوبلائزڈ ورلڈ میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں کوئی بھی کسی بھی سطح پر تنہائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔“

انہوں نے خبردار کیا کہ یہ تنہائی ایک ریاست کو عالمی برادری سے الگ تھلگ کررہی ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی کی جانب سے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کا براہِ راست حوالہ دینے سے گریز کیا، جس کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے ذریعے نیٹو سپلائی معطل ہے، لیکن ان کے تبصروں واضح طور پر انہی لوگوں کے بارے میں تھے، جنہیں انہوں نے بالواسطہ طور پر مخاطب کیا تھا۔

نواز شریف کے یہ ریمارکس اس موقع پر سامنے آئے ہیں، جب کہ ڈرون مخالف احتجاج بلوچستان تک پھیل گیاہے، جہاں نیٹو کے سامان کے رسد کی افغانستان فراہمی کا دوسرا راستہ بھی بند کیا جاچکا ہے۔

امریکا کی جانب سے خاص طور پر افغانستان سے انخلاء کے پیش نظرپاکستانی حکومت پر ان زمینی راستوں کو کھولنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔

امریکی کانگریس نے گزشتہ ہفتے کولیشن سپورٹ فنڈ کی ادائیگیوں کو نیٹو سپلائی کے راستوں کی بحالی کے ساتھ منسلک کرنے کا ایک بل منظور کیا تھا۔

کولیشن سپورٹ فنڈکے تحت امریکا پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران افغانستان میں کارروائیوں میں مدد دینے کی قیمت ادا کرتا ہے۔ 2014ءکی مدت کے لیے منظور شدہ رقم ڈیڑھ ارب ڈالرز ہے۔

یہی حکومت جو اس سے پہلے ڈرون پر پُرجوش بیانات دیتی رہی تھی، اب اس نے اپنے لہجے میں نرمی پیدا کی ہے۔ یکم نومبر کو ایک ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے امریکا کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی دھمکی دی تھی، اس کے بعد سے دفترخارجہ کی جانب سے آنے والے بیانات کی زبان میں نمایاں تبدیلی کی گئی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ان کی حکومت کو دہشت گردی ، انتہاپسندی اور اقتصادی بدحالی کے درپیش چیلنجوں کا شعور تھا۔ اپنی حکومت کی پہلی ترجیحات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد ایک پُرامن اور خوشحال پڑوس کی تعمیر، علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں تک رسائی، ”تجارت، نہ کہ امداد“ پر توجہ کو مرکوز کرنا اور دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک متفقہ نکتہ نظر کے قریب پہنچنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری، ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی، چین کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کو مضبوط بنانے، امریکا کے ساتھ تعلقات کی از سرنو تعمیر، یورپ کے ساتھ تعلقات اور مسلم دنیا کے ساتھ یکجہتی میں اضافے کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اقدامات شروع کیے تھے۔

اے پی پی: وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان عالمی برداری بالخصوص اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن اور دوستانہ تعلقات چاہتا ہے تاکہ خطہ میں امن و خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔

جمعہ کو یہاں دفتر خارجہ کے نئے بلاک کے افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے اسے سابق وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان سے منسوب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان علاقائی و عالمی امن کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اب حکومت چار نکاتی ایجنڈا پر توجہ دے رہی ہے جس میں دہشت گردی کا خاتمہ، معیشت کی بحالی، توانائی کے بحران پر قابو پانا اور امداد حاصل کرنے کی بجائے عالمی سطح پر تجارت کو فروغ دینا ہے۔

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ پاکستان عالمی برادری کے تعاون سے اپنے چیلنجوں پر قابو پا لے گا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان بھارت اور افغانستان سمیت اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم بنانے کے لیے تندہی سے کام رہا ہے۔

وزیراعظم نے روایتی سفارت کاری میں تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اسے موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کے لئے سفارتکاری صف اول کا محاذ ہوتا ہے اور وزارت خارجہ اور ملک کے سفارتکار امن کے فروغ اور بین الاقوامی اور علاقائی تعاون کو مستحکم بنانے کے لئے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ روایتی سفارتکاری اب نئی جہت اختیار کر گئی ہے اور کثیر الجہتی و دوطرفہ سفارتکاری پبلک ڈپلومیسی اور سروسز سٹریمز کے ساتھ معاشی ترقی زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے جن سابق سفارتکاروں نے اہم کردار ادا کیا ان میں جمشید مارکر، آغا شاہی، شہریار خان نمایاں ہیں، جنہوں نے پاکستان کے قومی مقاصد کے فروغ کے لیے کام کیا۔

وزیراعظم نے توقع ظاہر کی یہ ادارہ سفارتکاری میں جدید رجحانات اختیار کرے گا اور تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کے مطابق خود کو ڈھالے گا اور قومی مفادات کو مزید فروغ دے گا۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے ملکی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات واضح کر دیئے تھے ۔انہوں نے کہا تھا کہ ہمارا مقصد داخلی و خارجی سطح پر امن ہونا چاہیے جو اب بھی ہماری خارجہ پالیسی کا اہم عنصر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ قائداعظم نے واضح کیا تھا کہ پاکستان اپنے پڑوسیوں اور دنیا کے ساتھ پرامن اور دوستانہ تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں سب سے اہم پہلو پاکستان میں جمہوری اقتدار کی پر امن منتقلی تھا اور یہ ولولہ انگیزآزاد عدلیہ، آزاد میڈیا اور متحرک سول سوسائٹی کی صورت میں ہماری پیش رفت کی مزید عکاسی کرتا ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ درحقیقت جمہوریت کا استحکام باعث فخر ہے، ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ ہمارے ملک کو کٹھن چیلنجوں کا سامنا رہا جن میں انتہا پسندی و دہشت گردی کی لعنت اور اقتصادی صورتحال شامل ہے اور اسی باعث ہماری حکومت نے داخلی ایجنڈا میں جو ترجیحات مقرر کیں ان میں دہشت گردی کا خاتمہ، معیشت کی بحالی، توانائی کا بحران حل کرنا اور نظم و نسق بہتر بنانا شامل ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی چار بنیادی ترجیحات پر مبنی ہے جن میں پر امن اور خوشحال ہمسائیگی کو فروغ دینا، علاقائی اور عالمی پارٹنرز تک پہنچنا، امداد کی بجائے تجارت پر توجہ دینا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے متفقہ حکمت عملی تیار کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی مقاصد کے حصول کے لئے اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاکہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جا سکیں، بھارت کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کئے جا سکیں، چین کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری مستحکم بنائی جائے، امریکہ کے ساتھ باہمی احترام اور باہمی مفاد پر مبنی تعلقات دوبارہ استوار کئے جائیں، یورپ کے ساتھ روابط کو فروغ دیا جائے اور اسلامی دنیا کے ساتھ یکجہتی میں اضافہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قومی ایجنڈا میں اقتصادی جہتوں کی عکاسی ان تمام عوامل میں ہوتی ہے، حال ہی میں یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ ملنا اس حقیقت کا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے لئے ہمارا پیغام امن اور دوستی کا ہے، پاکستان باہمی مفاد پر مبنی تعاون چاہتا ہے، ہماری کوشش موجودہ دوستانہ تعلقات کو باہمی مفید شراکت داری میں تبدیل کرنا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ عالمگیریت کے دور میں کوئی ملک کسی سطح پر تنہائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ کے افسران اور عملہ پاکستان کے سفیر ہیں اور انہی کے ذریعہ عالمی برادری پاکستان سے رابطہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے کردار کا مظاہرہ کریں جس سے ملک کا مثبت تشخص اجاگر ہو جس کے لئے افسران کوعوامی رابطوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دور جدید میں سیاسی سفارتکاری اقتصادی سفارتکاری کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانی سفارتخانے اقتصادی سفارتکاری کی اپنی مہارتوں میں اضافہ کریں، تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ کے لیے ان کا کردار اور اقتصادی تعاون اہمیت کا حامل ہے اور اسی پیمانے کے ذریعے ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔

نواز شریف نے کہا کہ دفتر خارجہ کو وزارت تجارت، خزانہ، اطلاعات و نشریات اور داخلہ وزارتوں کے ساتھ اپنے ادارہ جاتی روابط مستحکم بنانے چاہئیں اور سرمایہ کاری بورڈ، ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان جیسے اداروں کے ساتھ زیادہ روابط کو فروغ دیا جائے تاکہ پاکستان کا مثبت تشخص قائم ہو اور ملک کے اقتصادی مفادات کو فروغ دیا جائے اور ان کا تحفظ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد دفتر خارجہ کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ زیادہ روابط رکھنے چاہئیں اور صوبوں کو دیگر ممالک کے ساتھ رابطے قائم کرنے میں سہولت دینی چاہیئے اور توقع ظاہر کی کہ دفتر خارجہ دیگر وزارتوں اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے مثبت انداز میں ملک کی اقتصادی صلاحیت بروئے کار لائے گا تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ترغیب دی جا سکے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے مثبت سفارتکاری مہم پر عملدرآمد کے لئے ہم آہنگ حکمت عملی اختیار کی جا سکے۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستانی سفارتخانوں کو اوورسیز پاکستانیوں کی ضروریات پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے اور پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ زیادہ میل جول رکھا جائے اور ان کے ساتھ خوش آئند اور اچھا برتاؤ رکھا جائے۔

نواز شریف نے بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں کے سربراہوں پر زور دیا کہ وہ پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ قریبی رابطہ رکھیں اور ان کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے اقدامات پر عملدرآمد کریں اور ان کی بہتر دیکھ بھال میں اضافہ کریں۔ انہوں نے وزارت خارجہ کو یقین دلایا کہ حکومت اس کی اہم ذمہ داریوں کی تکمیل میں تمام ضروری سہولیات اور مدد فراہم کرے گی۔ انہوں نے وزارت خارجہ کے افسران اور عملے کو نئے بلاک کے افتتاح پر مبارکباد دی اور اس اہم پراجیکٹ کے لئے کام کرنے والے تمام لوگوں کی کوششوں کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ صاحبزادہ یعقوب خان کے نام پر نیا بلاک مفید ثابت ہو گا جو کئی لحاظ سے ایک بلند قامت شخصیت تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہ صاحبزادہ یعقوب خان کو کئی سالوں سے ذاتی طور پر جانتے تھے جنہوں نے اپنے علم اور صلاحیت کی بدولت اندرون و بیرون ملک بڑا نام حاصل کیا۔ وزیراعظم نے دفتر خارجہ کے نئے بلاک کی تعمیر میں دوست ممالک سے اظہار تشکر کیا۔

امریکہ کے لیے نامزد سفیر جلیل عباس جیلانی نے اپنے ریمارکس میں ملک کی خارجہ پالیسی کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ دفتر خارجہ بین الاقوامی برادری اور پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کے لئے اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے دی گئی نئی خارجہ پالیسی گائیڈ لائنز سے مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ قبل ازیں وزیراعظم نے دفتر خارجہ کی عمارت کے نئے بلاک کا افتتاح کیا۔ انہوں نے دفتر خارجہ کی ٹیم کے ہمراہ نئی عمارت کا دورہ کیا جنہیں نئی عمارت کے متعلق بریف کیا گیا۔ تقریب میں وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و امور خارجہ سرتاج عزیز، خصوصی معاون طارق فاطمی، سفارتکاروں اور دفتر خارجہ کے افسران نے شرکت کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Muhammed saqib tariq Dec 28, 2013 10:19am
Quresh e Makkah used to say same thing to Muslims, this is not new