بنگلہ دیش میں الیکشن: حملے , ہڑتال اور آتشزدگی
ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں شیڈول کے تحت پانچ جنوری کو عام انتخابات ہونے ہیں جبکہ اس سے ایک دن قبل ملک بھر میں کئی پولنگ بوتھ اور ایک ٹرین کو آگ لگادی گئی ہے۔
ہفتے کے روز اپوزیشن نے نہ صرف ہڑتال کی بلکہ الیکشن کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا۔ بنگلہ دیشی نیشنلسٹ پارٹی ( بی این پی) نے دو دن کی عام ہڑتال کا کال دی ہے۔
بی این پی کی رہنما خالدہ ضیا نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ انتخابات کا 'مکمل بائیکاٹ' کریں جسے انہوں نے ایک ' متنازعہ ڈھونگ' قرار دیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر بھی الزام لگایا ہے کہ انہیں گھر میں نظر بند کیا گیا ہے۔
اکتوبر میں سیاسی خلفشار اور خصوصاً اگلے انتخابات سے وابستہ پرتشدد واقعات میں اب تک 150 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں اور مشاہدین نے خدشہ ظاہر کیا ہےکہ گزشتہ بارہ ماہ، 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سے اب تک بہت ہلاکت خیز رہے ہیں۔
ہفتے کے روز کے روز عوامی لیگ کے حامیوں نے اپوزیشن کے ایک رکن کو پٹگرام میں ہلاک کردیا ۔
آفیسرز کے مطابق احتجاج کرنے والوں نے ایک سو کے قریب پولنگ بوتھ جلادئیے اور ساتھ ہی ایک نجی آن لائن اخبار بی ڈی نیوز کا دفتر بھی نذرِ آتش کردیا ہے۔
پولیس کے مطابق شمالی علاقے میں مذہبی رحجان رکھنے والے مظاہرین نے بیلٹ پیپر کے ڈھیروں کو آگ لگادی۔
تاہم، ملک کے چیف الیکشن کمشنر قاضی رقیب الدین احمد نے کہا ہے کہ حملوں سے انتخابات ڈی ریل نہیں ہوں گے اور متاثرہ علاقوں میں الیکشن کیلئے دوسرے انتظامات کئے گئے ہیں۔
' ہم بھی پریشان ہیں، اور ہم نے امن و امان کے سخت نفاذ کا کہا ہے،' انہوں نے کہا۔
دوسری جانب حکومت کا مؤقف ہے اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کو نظر بند نہیں کیا گیا۔ لیکن ڈھاکہ میں واقع ان کے گھر کے باہر ہفتے کے روز بھی درجنوں پولیس اہلکار چوکس کھڑے دکھائی دیئے۔ ان کے پاس واٹرکینن اور مٹی بھرے ٹرک تھے تاکہ لوگوں کو قریب آنے سے روکا جاسکے۔
بی این پی اور چھوٹی بڑی بیس جماعتوں نے بھی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
ان کا کہنا ہےکہ حسینہ واجد ملک میں غیر جانبدار سیٹ اپ یعنی نگراں حکومت کے بعد ہی انتخابات کا اعلان کریں لیکن حسینہ نے اسے ماننے سے انکار کردیا تھا اور اس کے بعد ان جماعتوں نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس ہفتے کی ہڑتال میں دفاتر، اسکول اور کاروبار بند رہیں کیونکہ گاڑیوں پر پیٹرول بم پھینکنے کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔
پولیس کے مطابق اس نے اپوزیشن کے 1200 حامیوں اور مظاہرین کو گرفتار کیا ہے جبکہ اصل اعدادو شمار اس سے کہیں ذیادہ ہیں۔
فوج سڑکوں پر
پورے ملک میں فوج طلب کرلی گئی ہے اور تقریباً پچاس ہزار سپاہیوں کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ امریکہ، یورپی یونین اور کامن ویلتھ ممالک نے اپنے آبزرور بھیجنے سے انکار کردیا ہے۔
عوامی لیگ اور اتحادی اس وقت تین سو میں سے 153 پارلیمانی سیٹوں پر موجود ہیں اور اس ضمن میں الیکشن کا نتیجہ شکوک سے بھرپور ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب حسینہ نے انتخابی فریم ورک تبدیل کرنے کا اپوزیشن مطالبہ مسترد کردیا ہے۔
ایک سفارتی ماہر گوہر رضوی نے کہا ہے کہ حکومت کو الیکشن کرانے ہوں گے کیونکہ پارلیمانی مدت ختم ہوچکی ہے۔ اور اسے ملتوی کرنے کی صورت میں ایک سیاسی خلا پیدا ہوجائے گا۔
رضوی کے مطابق حسینہ اور خالدہ ضیا کے درمیان شدید لڑائی ہے لیکن وزیرِ اعظم بامقصد مذاکرات کیلئے اپنی خواہش کا اظہار کرچکی ہیں۔
بی این پی کے نائب چیئرمین شمشیر چوہدری نے کہا ہے کہ نئے انتخابات کیلئے حسینہ کو ایک طرف ہونا پڑے گا اور ہم اس مطالبے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
جمعے کو شائع ایک سروے کے مطابق عوامی لیگ پر بی این پی کو معمولی ذیادہ برتری حاصل ہے اور اس وقت 77 ووٹرز الیکشنز کیخلاف ہیں۔
دونوں جماعمتیں بد امنی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتی ہیں۔ بعض انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق دوہزار تیرہ سے اب تک وہاں فسادات میں پانچ سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔