بنگلہ دیش: پرتشدد انتخابات میں حکومت کامیاب، مذاکرات سے انکار

شائع January 6, 2014
حکومتی کمیونٹی سینٹر میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی تصویر کے باہر بنگلہ دیشی پرچم لہرا رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
حکومتی کمیونٹی سینٹر میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی تصویر کے باہر بنگلہ دیشی پرچم لہرا رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ڈھاکا: بنگلہ دیش کی حکمران جماعت نے اپوزیشن کے بائیکاٹ، کم ٹرن آؤٹ اور تشدد سے بھرپور انتخابات میں کامیابی کے بعد حزب اختلاف سے مذاکرات کا دباؤ مسترد کر دیا ہے۔

اتوار کو ہونے والے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ نہ ملنے کے حوالے سے خبردار کیے جانے کے باوجود حکمران ماعت عوامی لیگ نے شدت پسندی کے خاتمے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے الیکشن کا انعقاد کرایا جہاں انتخابات کے دن پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد 24 ہو گئی ہے۔

الیکشن کے بائیکاٹ اور امیدوار کھڑے نہ کرنے کا اعلان کرنے والی مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی نے حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اپنی ہڑتال کی مدت میں بدھ تک توسیع کر دی ہے۔

اخبارات کے مطابق حکومت ملک کو تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہے تاہم وزیر اعظم چیخ حسینہ واجد کے اہم لیفٹننٹ نے نئے انتخابات کے حوالے سے اپوزیشن سے گفتگو کے امکان کو رد کر دیا ہے۔

وزیر ماحولیات حسن محمود نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم اس وقت مذاکرات کے حوالے سے نہیں سوچ رہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری اولین ترجیح حکومت کا قیام اور تشدد کی روک تھام ہے، ہمیں تشدد اور شدت پسندی کا خاتمہ کرنا ہے تاکہ لوگ پرسکون زندگی گزار سکیں۔

اتوار کو ہونے والے الیکشن میں عوامی لیگ نے باآسانی کامیابی حاصل کر لی جہاں بی این پی سمیت 20 سے زائد جماعتوں نے عام انتخابات میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔

حکمران جماعت نے 300 میں سے 80 فیصد سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ بقیہ سیٹوں پر ان کے اتحادی کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔

خوف و دہشت کے سائے میں ہونے والے پرتشدد اور متنازع الیکشن میں فتح کے بعد ماحول ماضی سے خاصا مختلف تھا اور ملک میں بیشتر مقامات پر کامیابی کا جشن نہیں منایا گیا۔

گزشتہ روز مظاہرین کی جانب سے خصوصاً شمالی علاقوں میں سینکڑوں پولنگ اسٹیشن کو نذر آرتش کردیا گیا جبکہ اس دوران 21 افراد بھی ہلاک ہوئے جن میں سے زیادہ تر پولیس کی گولیاں کا نشانہ بنے۔

روزنامہ اسٹار نے اسے بنگلہ دیشی تاریخ کے خونی الیکشن قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوامی لیگ نے کھوکھلی فتح حاصل کی جس میں نہ انہیں مینڈیٹ ملا اور نہ ہی وہ اخلاقی طور پر حکومت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

وزیر مواصلات عبیدالقادر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہاں ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ الیکشن دنیا بھر میں قابل قبول ہیں، اس دوران روایتی ماحول اور ٹرن آؤٹ نہ ہونے کے برابر تھا لیکن آپ اسے ناقابل قبول نہیں کہہ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا اگلا مقصد حکومت کا قیام ہے، ہم اتفاق رائے کے لیے حزب اختلاف سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے لیے انہیں تشدد کو ترک کرنا ہو گا۔

بی این پی کی رہنما خالدہ ضیا اک ہفتے سے زائد مدت سے گھر میں نظر بند ہیں جہاں انہوں نے الیکشن کو ناکام بنانے کے لیے اپنے کارکنوں کو اکسایا۔

دوسری جانب بی این پی نے اس بحران کی تمام تر ذمے داری حکومت پر عائد کی ہے۔

بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے نائب صدر شمشیر چوہدری نے کہا کہ کم ٹرن آؤٹ اس بات کی نشاندہی ہے کہ عوام ایک غیر جانبدار نگراں انتظامیہ کی زیر نگرانی انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ہر حال میں ان الیکشنز کو کالعدم قرار دینا ہو گا اور ہم ایک ایک غیر جماعتی حکومت کی زیر نگرانی الیکشن کا انعقاد چاہتے ہیں، حکومت کو مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

ملک کے حالات کے پیش نظر امریکا سمیت تمام عالمی طاقتوں نے ملک میں اپنے مبصرین بھیجنے سے انکار کر دیا تھا تاہم امریکا کا کہنا ہے کہ ماحول بہتر ہونے پر وہ اپنے مبصرین کو دوبارہ بھیجنے پر غور کر سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ نئے انتخابات کے حوالے سے کوئی بھی معاہدہ حسینہ واجد حکومت کے لیے اقتدار سے محرومی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ الیکشن سے قبل جاری کیے گئے ایک سروے کے مطابق بی این پی واضح اکثریت کے ساتھ باآسانی حسینہ کی پارٹی کو شکست دے سکتی ہے۔

تاہم روزنامہ نیو ایج نے اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ اگر حکومت اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھتے ہوئے انتخابات کرانے پر رضامند نہیں ہوتی تو اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔

مزید یہ کہ سیاسی اور سماجی بحران میں اضافے کی صورت میں ملک کو عالمی برادری کے غیض و غضب کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس صورت میں وہ معاشی اور سفارتی سطح پر تنہا ہو جائے گا۔

اتوار کو ہونے والے الیکشن میں ٹرن آؤٹ کے حوالے سے کوئی حتمی اعدادوشمار تو منظر عام پر نہیں آ سکے لیکن ڈھاکا میں الیکشن کمیشن کے اعلیٰ افسر کے مطابق دارالحکومت میں ٹرن آؤٹ 22.8 فیصد رہا۔

اگر ملک بھر میں یہی ٹرن آؤٹ کی یہی صورتحال تھی تو یہ بنگلہ دیش میں ہونے والے الیکشن میں تاریخ کا کم ترین ٹرن آؤٹ ہو گا جہاں اس سے قبل 1996 میں ٹرن آؤٹ 26 فیصد رہا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 29 جون 2025
کارٹون : 28 جون 2025