آخر بگ تھری کا توڑ کیا؟

شائع February 2, 2014
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ تمام ڈرامہ آئی سی سی کی منشا سے ہوا۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ تمام ڈرامہ آئی سی سی کی منشا سے ہوا۔

گزشتہ قریباً ایک ہفتے کے دوران کرکٹ کھیلنے والے تمام ملکوں میں 'بگ تھری' محو گفتگو رہا اور اس دوران شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب ان ملکوں میں کھیلوں کی سرخی اس موضوع سے ہٹ کر ہو۔

آئی سی سی چاہے لاکھ انکار کرے لیکن یہ بات کسی ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ سب ڈرامہ کرکٹ کی نام نہاد عالمی گورننگ باڈی کی منشا سے ہوا۔

آسٹریلیا، ہندوستان اور انگلینڈ کی جانب سے کرکٹ کے تمام معاملات پر قبضے کی اس ممکنہ کامیاب کوشش کو تمام ہی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور حتیٰ کہ ان ملکوں سے تعلق رکھنے والے سابق کھلاڑی اور حکام بھی اس کے خلاف بولے بنا نہ رہ سکے۔

یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ اس تجویز میں پاکستان کو شامل نہیں کیا گیا اور اسے کسی بڑے مالی یا انتظامی حصے میں اہمیت نہیں دی جائے گی، بلکہ اصل خرابی جڑ اس کے وہ تباہ کن نکات ہیں جو درحقیقت کرکٹ کی تباہی کا سبب بنیں گے۔

بالاخر اجلاس ہوا، جوڑ توڑ کی بھرپور سیاست کا عملی نمونہ بھی دیکھا گیا۔ نیوزی لینڈ تو پہلے ہی ان کی پیروی پر آمادہ تھا لیکن ذرا سا دباؤ کیا پڑا ویسٹ انڈیز بھی ان کے ساتھ پر آمادہ ہو گیا۔

بنگلہ دیش کے تو کیا ہی کہنے ہیں، ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس نے اپنی بولی لگانے کے لیے روٹھنے کا کیا خوب ڈرامہ کیا جو کامیاب تو ہونا ہی تھا اور ادھر مرضی کی ڈیل ہوئی اور ادھر وہ پیچھے پیچھے چل پڑے، رہی بات زمبابوے کی، تو وہ بے چارہ تو کسی گنتی میں ہی نہیں ہے۔

اس دوران تینوں ای سی بی، بی سی سی آئی اور سی اے کے حکام ساتوں رکن ملکوں کے نمائندوں کی چاپلوسی کرتے دکھائی دیے جس میں ہندوستانی حکام باآسانی بازی لے گئے۔

اب میدان میں صرف جنوبی افریقہ، پاکستان اور سری لنکا کھڑے ہیں جہاں اس مسودے کی منظوری کے لیے کسی ایک کی حمایت بھی بگ تھری کی مراد پوری کر دے گی۔

پاکستان اور سری لنکا نے بظاہر تو ان تینوں بڑی طاقتوں کے فیصلے کی کھل کر مخالفت کی ہے لیکن درحقیقت وہ اس حوالے سے ابہام کا شکار ہیں لیکن جنوبی افریقہ ایک بار پھر میدان میں اکیلے شیر کی مانند ڈٹا کھڑا ہے اور شاید آخر تک ڈٹا رہے۔

کیا پاکستان اور جنوبی افریقہ کے بغیر مسودہ قابل عمل ہو گا؟

یہاں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ مسودہ منظور کر کے لاگو کر دیا جاتا ہے اور پاکستان اور جنوبی افریقہ اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، تو کیا اس صورت میں یہ قابل عمل ہو گا۔

اگر کرکٹ کے گزشتہ سالوں کی کارکردگی، ریکارڈز اور اعداد وشمار پر نظر دوڑائی جائے پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات کسی حد تک قابل عمل دکھائی نہیں دیتی۔

جنوبی افریقہ اور خصوصاً پاکستان نے عالمی کرکٹ کو ہر دور میں بہترین کھلاڑی فراہم کیے۔

نسل پرستی کے باعث عالمی سطح پر لگی پابندی کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہونے کے باوجود جنوبی افریقہ نے جس انداز میں کرکٹ میں واپسی کی وہ یقیناً قابل ستائش ہے اور اس وقت بھی چاہے ٹیسٹ کرکٹ ہو، ایک روزہ میچ یا ٹی ٹوئنٹی، جنوبی افریقہ کو تینوں ہی شعبوں میں ملکہ حاصل ہے۔

اپنی غیر متوقع کارکردگی کے باوجود کرکٹ میں آمد سے اب تک پاکستان نے دنیائے کرکٹ کو متعدد لیجنڈ کھلاڑی فراہم کیے خصوصاً باؤلنگ کے شعبے میں پاکستان ہمیشہ ہی دنیا کی دیگر ٹیموں سے ممتاز رہا ہے۔

مالی طور پر استحکام اور عالمی توجہ مبذول کرانے کا واحد حل ایک لیگ ہے لیکن دونوں ملک علیحدہ لیگ کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے خصوصاً پاکستان تو ہرگز نہیں۔

مشہور اصطلاح ہے کہ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، بالکل اسی طرح اگر آنے والے وقتوں میں یہ دونوں ملک اپنے کھیل کی بدولت کرکٹ کی دنیا پر راج کرتے ہیں تو کیا بگ تھری کی بالادستہ برقرار رہے گی؟، یقیناً نہیں۔

ایسی صورت یہ منصوبہ کس حد تک اور آخر کب تک قابل عمل رہے گا؟۔

بگ تھری کا اصل شہنشاہ کون؟

طاقت اور پیسے کی لالچ کا یہ شکار تینوں ملک ابتدائی سازش تو بنا چکے لیکن بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے بعد ان تینوں میں سے کرکٹ کا اصل شہنشاہ کون ہو گا؟۔

تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں سب سے برتر کی جنگ ہمیشہ سے جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گی، ایک مرتبہ منصوبے پر عمل درآمد کے بعد جلد یا بدیر، ان تینوں ملکوں کے درمیان کرکٹ معاملات پر گرفت حاصل کرنے کی ایک نئی جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔

لیکن طاقت کے حصول کی اس جنگ کا فاتح کون ہو گا اس کا تعین تو مستقبل ہی کرے گا لیکن اس تمام سرکس میں کرکٹ کا کھیل تباہی سے دوچار ہو جائے گا جس سے اس کی موجودہ کشش دم توڑ جائے گی اور ایسوسی ایٹ ملکوں میں کرکٹ کا فروغ خواب بن جائے گا۔

بگ تھری کا توڑ کیا؟

کرکٹ میں اس تباہ کن تر پیشرفت کی اصل وجہ آسٹریلیا، ہندوستان اور انگلینڈ کا مالی طور پر مضبوط ہونا ہے جسے وہ مزید مستحکم کرنے کے لیے کھیل کو پس پشت ڈال کر کوئی بھی قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔

یہاں اس سلسلے میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے فروغ اور اس کے باعث منظر عام پر آنے والی کھیل کے چھوٹے ترین فارمیٹ کی لیگ کرکٹ نے بھی اہم کردار ادا کیا جس کے باعث کچھ ملکوں میں کرکٹ نے ایک نیا رخ لیا۔

انگلش کرکٹ بورڈ کھیل کی ابتدا سے ہی مالی طور پر مستحکم ہے جبکہ گزرتے وقت کے ساتھ بہترین انفرا اسٹرکچر کے باعث آسٹریلیا نے بھی اپنے قدم مضبوط کیے جبکہ بگ باش لیگ کے بعد اس کو مزید تقویت ملی۔

تاہم ہندوستان کا معاملہ اس سے تھوڑا مختلف ہے جو ملک کی معاشی حالت کے باعث کبھی بھی مالی طور پر زیادہ مضبوط نہ تھا لیکن جیسے کیسے نوے کی دہائی میں ملکی حالات بہترعی کی جانب گامزن ہوئے اس کا ااثر کرکٹ میں واضح نظر آیا۔

تاہم یہ انڈین پریمیئر لیگ تھی جس نے ہندوستانی بورڈ کی کایا ہی پلٹ دی اور وہ راتوں رات کرکٹ کی دنیا میں خدائی فوجدار بن گئے۔ لہٰذا اس چکر کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی مالی حربہ ہی آزمایا جائے۔

اب تینوں کو لگام ڈالنے کی تمام تر ذمے داری جنوبی افریقہ، پاکستان اور سری لنکا پر عائد ہوتی ہے خصوصاً پاکستان اور جنوبی افریقہ کو اس سلسلے میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان اور پروٹیز کے تعلقات بہت اچھے رہے جس کی واضح مثال گزشتہ سال دونوں ملکوں کے درمیان کھیلی جانے والی تین سیریز تھیں۔

دونوں ہی ملکوں میں عالمی شہرت یافتہ اور قابل کرکٹرز کی بھرمار ہے لیکن مالی طور پر مستحکم نہ ہونے کے باعث وہ نہ صرف آئی سی سی میں اثر و رسوخ کے حصول میں ناکام رہیں بلکہ اس اعلیٰ درجے کو نہ پہنچ سکیں جس کی وہ اصل حقدار تھیں۔

مالی طور پر استحکام اور عالمی توجہ مبذول کرانے کا واحد حل ایک لیگ ہے لیکن دونوں ملک علیحدہ لیگ کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے خصوصاً پاکستان تو ہرگز نہیں۔

اب اس واحد حل ایک مشترکہ ٹی ٹوئنٹی پریمیئر لیگ میں ہی دکھائی دیتا ہے جو ناصرف پیسے کے حصول کا سبب بنے گا جبکہ ایسی صورت میں دیگر ٹیمیں بھی ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو جائیں گی۔

موجودہ صورتحال میں یہ بات کافی حد تک قابل عمل دکھائی دیتی ہے کیونکہ دونوں ملکوں کی مقامی لیگ ہونے کے باوجود وہ بگ باش یا آئی پی ایل کی سطح پر کامیابی حاصل نہ کر سکی اور نہ ہی اس سلسلے میں کوششیں کی گئیں۔

پاکستان کے لیے یہ بات اس لیے بھی خاصی سود مند دکھائی دیتی ہے کیونکہ ملک میں عالمی کرکٹ نہ ہونے کے باعث وہ ویسے بھی کسی بڑے پیمانے کی لیگ پاکستان میں منعقد نہیں کرا سکتے لیکن جنوبی افریقہ میں شاندار سہولیات سے مزین گراؤنڈ میں کھیلنے پر غیر ملکی ٹیمیں بھی آمادہ ہو گی اور اس سے پاکستان کو بھی خاصا فائدہ پہنچے گا۔

جبکہ اس تجویز میں سری لنکا کی شمولیت کے ساتھ ہی یہ منصوبہ مزید اہمیت اختیار کر جائے گا اور مستقبل میں اس طرح کے کسی بھی پاور گروپ کی تشکیل میں رکاوٹ بن سکے گا۔

اب پاکستانی اور ہندوستانی کرکٹ حکام کو فوری طور پر اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے کچھ فیصلے کرنے ہوں گے ورنہ آئندہ آنے والے سالوں میں ان بگ تھری کا اثر و رسوخ دیگر ملکوں میں کرکٹ کے خاتمے اور تباہی کا سبب بن جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 6 جولائی 2025
کارٹون : 5 جولائی 2025