ٹی ٹی پی پشاور کے چیف نے ہوٹل بم حملے کی ذمہ داری قبول کرلی

06 فروری 2014
مفتی حسان ٹی ٹی پی کی سپریم شوریٰ کے ممبر ہیں، لیکن ابھی تک واضح نہیں کہ آیا انہیں کب ٹی ٹی پی پشاور کا چیف مقرر کیا گیا۔
مفتی حسان ٹی ٹی پی کی سپریم شوریٰ کے ممبر ہیں، لیکن ابھی تک واضح نہیں کہ آیا انہیں کب ٹی ٹی پی پشاور کا چیف مقرر کیا گیا۔

میران شاہ: کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک رکن، جنہوں نے خود کو ٹی ٹی پی پشاور کا ضلعی چیف قرار دیتے ہوئے منگل کی شام ایک ہوٹل پر ہوئے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی، جس میں نو افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اگرچہ تحریک طالبان پاکستان نے منگل کے روز پشاور کے علاقے کوچہ رسالدار میں واقع پاک ہوٹل پر ہوئے حملے میں اپنی مداخلت سے انکار کیا تھا، گزشتہ روز بدھ کو مفتی حسان سواتی نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ یہ حملہ گزشتہ سال نومبر میں راولپنڈی کے ایک مدرسہ تعلیم القرآن پر ہوئے حملے میں معصوم طالبعلموں کی ہلاکت کا در عمل تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جس ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا وہاں زیادہ تر پاراچنار سے لوگوں آتے ہیں اور یہ نا صرف راولپنڈی حملے، بلکہ تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے رہنماء علی اصغر اور ایک بینک منیجر کے قتل کا بھی ردِ عمل تھا۔

مفتی حسان سواتی کا کہنا تھا کہ پشاور ہوٹل پر کیا گیا حملہ ہمارے مرکزی ڈپٹی امیر شیخ خالد حقانی کی ہدایت پر کیا گیا جو راولپنڈی پر ہوئے حملے کا بدلہ تھا۔

مفتی حسان ٹی ٹی پی کی سپریم شوریٰ کے ممبر ہیں، لیکن ابھی تک واضح نہیں کہ آیا انہیں کب ٹی ٹی پی پشاور کا چیف مقرر کیا گیا۔

خیال رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کے گروپ کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انہوں نے مفتی حسن کے بیان پر کوئی درِ عمل دیا ہے۔

ادھر سیکیورٹی ذرائع نے کچھ وقت پہلے مفتی حسان کی جاسوسی کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے۔

تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا اس نئی پش رفت سے حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحتی عمل پر کیسا اثر مرتب ہوگا، لیکن امن مذاکرات کے لیے طالبان کی جانب سے نامزد کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی تبصرے سے پہلے طالبان سے بات کریں گے۔

کمیٹی کے تین اراکین میں سے ایک جماعتِ اسلامی کے پروفیسر محمد ابراہم خان نے ڈان کو بتایا کہ جہاں تک ہم جانتے ہیں طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے، لیکن ہم اور اس نئے پیش رفت پر بات کرنے کے لیے ان سے رابطہ قائم کریں گے۔

مصالحتی عمل کے لیے حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کے کوآرڈیننٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ترجمان کے باضابطہ جواب کا انتظار کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی کمیٹی کے ساتھ ملاقات کی کوششیں ناکام رہی ہیں اور ہم اب ان کا انتظار کررہے ہیں۔

مفتی حسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان حملوں سے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کمزور نہیں ہوگا، لیکن جب تک بات چیت کے ذریعے دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی نہیں ہوجاتی، شدت پسند اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔

میڈیا سے بات چیف کرتے ہوئے مفتی حسان کے پس منظر میں ٹی ٹی پی کا بینر تھا اور ان کے ہمراہ حزبل مجاہدین کے رہنما ہارون خان، الیاس گل بھی موجود تھے۔ جن کو 1995ء میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں جیل سے فرار ہونے کے بعد ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی کے بعد شہرت ملی تھی۔

ان کا تعلق کرم ایجنسی کے علاقے سدا سے ہے۔

47 سالہ جنگجو نے اگست 2003 میں پشاور کے قریب ایک حملے کیا تھا اور جس اس کے بعد سے ان کا ٹکھانا سمجھا جاتا ہے۔

مفتی حسان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پشاور حملوں کے لیے مست گل کو ہدایت دی تھی۔

تبصرے (4) بند ہیں

Qaisar Baloch Feb 06, 2014 10:06am
I thought I am the only one who make mistakes in Urdu but DAWN is also making mistakes.
حسین محبی Feb 06, 2014 12:45pm
طالبان ہرگز اسلام اور مسلمانوں کا ترجمان نہیں۔ حتیٰ کہ مسلک دیوبند جو آبادی میں صرف ۱۵ فیصد ہے اور طالبان کا تعلق بھی اسی مسلک سے ہے، کے جید علماء، دانشور اور مفتی حضرات بھی طالبان کی تشریح کردہ شریعت سے اتفاق نہیں کرتے۔ اسلامی شریعت میں جنگ کی صورت حال میں بھی کسی غیر متحارب افراد، زخمیوں، عورتوں، بچوں معذوروں پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، عبادت گاہوں (چاہے غیر مسلموں کی کیوں نہ ہو)، فصلوں، جانوروں اور نہروں جیسے انسانی زندگی کی تمام ضروریات و وسائل پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، جبکہ طالبان کی شریعت میں عبادت گزاروں، نمازیوں، بسوں میں سفر کرنے والے نہتے بچوں، خواتین اور بہتے لوگوں، ہسپتال کے بستروں پر پڑے ہوئے زخمیوں اور مریضوں، ہوٹلوں میں کھانا کھاتے والوں، سکول جانے والے طالبہ و طالبات، وکلا، ججوں، اساتذہ، تاجروں، علما، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، فنکاروں، صحافیوں اور ہر اس انسان کو انتہائی بے دردی سے ذبح کرنا، قتل کرنا، آگ میں جھلسا دینا، گولیوں سے چھلنا، بموں سے پارہ پارہ کرنا، انسانی جسم کو ٹکرے ٹکرے کرنا عمدہ، واجب اور نہایت مستحسن فرائض شرعی میں سے ہیں اور اسی شریعت کے نفاذ کے لیے انہوں اب تک صرف ستر ہزار نہتے پاکستانوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔ اس شریعت کے نفاذ کے لیے طالبان نے درجنوں مساجد، درجنوں امام بارگاہوں، کئی گرجا گھروں، مندروں کو نشانہ بنایا ہے۔ طالبان کی شریعت میں ڈرون حملوں میں مرنے والوں کا قصاص پاکستان کے شیعہ، بریلوی، مسیحی، احمدی، سکھ اور ہندو کمیٹی کے نہتے عوام سے لیا جاتا ہے؟ طالبان کی شریعت میں ہر اس کو قتل کیا جائے گا جو کسی بھی لحاظ سے اُن سے اختل
حسین محبی Feb 06, 2014 12:46pm
طالبان ہرگز اسلام اور مسلمانوں کا ترجمان نہیں۔ حتیٰ کہ مسلک دیوبند جو آبادی میں صرف ۱۵ فیصد ہے اور طالبان کا تعلق بھی اسی مسلک سے ہے، کے جید علماء، دانشور اور مفتی حضرات بھی طالبان کی تشریح کردہ شریعت سے اتفاق نہیں کرتے۔ اسلامی شریعت میں جنگ کی صورت حال میں بھی کسی غیر متحارب افراد، زخمیوں، عورتوں، بچوں معذوروں پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، عبادت گاہوں (چاہے غیر مسلموں کی کیوں نہ ہو)، فصلوں، جانوروں اور نہروں جیسے انسانی زندگی کی تمام ضروریات و وسائل پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، جبکہ طالبان کی شریعت میں عبادت گزاروں، نمازیوں، بسوں میں سفر کرنے والے نہتے بچوں، خواتین اور بہتے لوگوں، ہسپتال کے بستروں پر پڑے ہوئے زخمیوں اور مریضوں، ہوٹلوں میں کھانا کھاتے والوں، سکول جانے والے طالبہ و طالبات، وکلا، ججوں، اساتذہ، تاجروں، علما، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، فنکاروں، صحافیوں اور ہر اس انسان کو انتہائی بے دردی سے ذبح کرنا، قتل کرنا، آگ میں جھلسا دینا، گولیوں سے چھلنا، بموں سے پارہ پارہ کرنا، انسانی جسم کو ٹکرے ٹکرے کرنا عمدہ، واجب اور نہایت مستحسن فرائض شرعی میں سے ہیں اور اسی شریعت کے نفاذ کے لیے انہوں اب تک صرف ستر ہزار نہتے پاکستانوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔ اس شریعت کے نفاذ کے لیے طالبان نے درجنوں مساجد، درجنوں امام بارگاہوں، کئی گرجا گھروں، مندروں کو نشانہ بنایا ہے۔ طالبان کی شریعت میں ڈرون حملوں میں مرنے والوں کا قصاص پاکستان کے شیعہ، بریلوی، مسیحی، احمدی، سکھ اور ہندو کمیٹی کے نہتے عوام سے لیا جاتا ہے؟ طالبان کی شریعت میں ہر اس کو قتل کیا جائے گا جو کسی بھی لحاظ سے اُن سے اختل
Iqbal Jehangir Feb 06, 2014 02:00pm
اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے ، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی جیسی قبیح برائیوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔خودکش حملے اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں. اسلام میں ایک بے گناہ فرد کا قتل ، پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے.معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، بم دہماکے کرنا،خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا دہشتگردی ہے ،جہاد نہ ہے،جہاد تو اللہ کی راہ میں ،اللہ تعالی کی خشنودی کے لئےکیا جاتا ہے۔اسلام کسی بھی مسلم حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی ممانعت کرتا ہے۔طالبان دہشت گرد ،اسلام کے نام پر غیر اسلامی حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں. طالبان دنیا بھر اور پاکستان میں دہشت گردی کے میزبان ہیں۔ایک طرف مذاکرات اور دوسری طرف دہشت گردانہ حملے بھی جاری ہیں اور اس طرح طالبان گیمیں کھیل رہے ہیں۔۔ یہ ہیں کرتوت اسلام نافذ کرنے والوں کے؟ ........................................................................................................................ پشاور کے ہوٹل پر خودکش حملہ http://awazepakistan.wordpress.com/