فوج کی آڑ میں

شائع February 28, 2014
بجائے اس کے کہ قوم کو اعتماد میں لے کر ثابت قدمی کا راستہ اپنائیں، شریف حکومت فوج کے پیچھے چھپ رہی ہے-
بجائے اس کے کہ قوم کو اعتماد میں لے کر ثابت قدمی کا راستہ اپنائیں، شریف حکومت فوج کے پیچھے چھپ رہی ہے-

۔

شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حالیہ فوجی حملے اب لازم ہو گئے تھے- شریف حکومت کے پاس فرنٹئیرکور کے 23 اہلکاروں کے سفاکانہ قتل کے بعد کوئی دوسرا راستہ رہ نہیں گیا تھا سوائے اس کے کہ مذاکرات کے ڈھونگ کو یہیں پر روک دیں- اس کے بعد سے ائیر فورس کے لڑاکا جیٹ مشتبہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر مسلسل بمباری کررہے ہیں، رپورٹوں کے مطابق کافی کمانڈروں کا صفایا ہوچکا ہے-

اس کے باوجود، ان ٹارگیٹڈ بمباریوں کے پیچھے کوئی قابل فہم حکمت عملی اب بھی نظر نہیں آرہی ہے-

یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ یہ اچانک یلغار کیا ٹی ٹی پی کو اس کے مستحکم گڑھ سے مکمل طور پر ختم کرنے کے کسی منصوبے کا حصہ ہے یا یہ صرف حساب برابر کرنے کیلئے ایک جوابی کارروائی کے طور پر ہے تاکہ ان کو مذاکرات کے پرانے ڈھکوسلے کی میز پر واپس لاسکیں-

یوں بھی، ابھی تک ہماری سویلین قیادت کی طرف سے اس جنگ کو اس کے انجام تک پہنچانے کے عزم کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے- اس بات کا کافی امکان ہے کہ فوج کے دباؤ کی وجہ سے حکومت ایسے سرجیکل حملوں کا حکم دینے کیلئے آمادہ ہوئی ہو-

یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک خوفزدہ انتظامیہ عموماً ایسے عمل کی ذمہ داری لینے سےکتراتی ہے، اور اس کا فیصلہ فوجی کمان کی صوابدید پر چھوڑ دینا بہتر سمجھتی ہے- ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی نظر میں یہ فوج کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ اپنے سپاہیوں کی موت کا "انتقام" لے-

سویلین قیادت نے یقینی طور پر ابھی تک امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے کہ فی الواقع مردہ مذاکرات میں ابھی بھی جان ڈالی جاسکتی ہے- یہ سختی کرنے سے زیادہ نرمی کا رویہ ہے جو انہوں نے ابتک اپنا رکھا ہے-

بجائے اس کے کہ اس خطرہ کے خلاف قوم کو اعتماد میں لے کر ثابت قدمی کا راستہ اپنائیں شریف حکومت فوج کے پیچھے چھپ رہی ہے- وزیرداخلہ نے فوج کے حالیہ حملوں کے حوالے سے جو ریمارکس دئے ہیں اس سے زیادہ احمقانہ بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی ہے جس میں انہوں نے شمالی وزیرستان میں فوجی حملوں کو فوج کے اپنے بچاؤ کی خاطر قرار دیا؛

"فوج کو اپنے بچاؤ کیلئے اقدامات کرنے کا حق ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا"، انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا-

سو وزیر موصوف کی نظر میں طالبان کے حملوں کے خلاف فوج کا یہ اقدام بس اپنے بچاؤ کیلئے تھا۔ ان کی نظر میں، دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر یہ بمباری بس ایک یکطرفہ تعزیری کارروائی تھی- اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جائے، مذہبی مقامات کو بم سے اڑادیا جائے اور ریاست کی حاکمیت کو دہشت گرد چیلینج کرتے پھریں- یہ ایک منتخب انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت سے کسی طرح کم نہیں ہے کہ ریاست کو بچانے کی ذمہ داری سے اس طرح منہ موڑا جائے، آئین اور جمہوری قدروں کو دہشت گرد پامال کرتے رہیں-

حکومت کی یہ دانستہ حکمت عملی لگتی ہے کہ ابہام کو برقرار رکھا جائے اور ممکنہ وسائل اور پوری طاقت کے ساتھ آپریشن کرنے کی یقین دہانی کا کوئی تاثر نہ دیا جائے- یہ جنگ، فوج کی جنگ ہے، یہ اس کا یقین ہے- اور فوج کو ہی اس سے نمٹنا چاہئے، اور حکومت امن کا کارڈ لہراتی رہے-

کوئی عجیب بات نہیں کہ چودھری نثار علی خان، جو طالبان کی دلجوئی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں، اب بھی عسکریت پسندوں کے ساتھ نام نہاد مذاکرات ازسرنو شروع ہونے کے بارے میں پرامید ہیں-

ان کا طالبان کو دوستانہ کرکٹ میچ کھیلنے کی دعوت ایک بھونڈے حس مزاح کا کرشمہ ہی نہیں بلکہ ان کے بچکانہ رویہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ملک کو درپیش ایک بےحد سنجیدہ مسئلہ کے بارے میں ہے- دراصل یہ ایک سنگین مذاق ہے-

یہ نوازشریف کا چالاکی کے ساتھ حکومت کرنے کا مخصوص انداز ہے- یہ خصوصیت زیادہ واضح طور پر اس وقت نظر آتی ہے جب ان کو ملکی سلامتی اور عسکریت کے سب سے زیادہ اہم مسائل کو حل کرنے کا مسئلہ درپیش ہو- مستقبل کے حوالے سے پالیسیوں پر عمل درآمد کے بارے میں ان کی کوئی سوچ نہیں ہے- کچھ پتہ نہیں ہے کہ وزیراعظم نے آخر طاقت استعمال کرنے کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے اور کس حد تک جانا ہے- اس غیریقینی کی کیفیت کی وجہ سے پورا ملک مختلف خیالات میں اس حد تک بٹ گیا ہے کہ ملکی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے-

شریف صاحب کےحالیہ فیصلے سے کہ وہ شام میں القاعدہ کو سعودی مدد کی حمایت کریں گے، سُنّی تشدد پسند گروپوں کی لازمی حوصلہ افزائی ہوگی جو فرقہ وارانہ اموات اور فوج پر دہشت گرد حملوں میں ملوث ہے-

مشرق وسطیٰ کے نئے جہادی تھیٹرمیں پاکستانی عسکریت پسندوں کے حصہ لینے کے بارے میں رپورٹیں پہلے ہی موجود ہیں- دوسرے ملکوں کی خانہ جنگی میں طرفداری کا یہ غیر عقلی فیصلہ پاکستان کو ایک ایسے وقت میں عالمی تنازعے میں دھکیل سکتا ہے جب کہ وہ خود اپنے وجود کی جنگ لڑرہا ہے- اس حرکت سے شام میں وہ انہیں طاقتوں کی مدد کرے گا جن سے پاکستان میں وہ خود لڑرہا ہے-

شریف صاحب کے سعودی سرپرستوں کو خوش کرنے کی اس احمقانہ پالیسی سے ملک میں خانہ جنگی کے خطرات ہوسکتے ہیں-

یقینی طور پر، دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکالنے کیلئے فوجی آپریشن بےحد ضروری ہے- لیکن یہ صرف آدھی جنگ ہے- اس پیچیدہ جنگ میں مکمل کامیابی کا انحصار اس بات پر زیادہ ہے کہ کیا ہم اس تشدد پسند ذہنیت اور سوچ کو بھی شکست دے سکتے ہیں؟

بد قسمتی سے، ایسا لگتا ہے کہ قومی قیادت نے یہ ساری ذمہ داری مذہبی جماعتوں اور کٹرخیالات رکھنے والے طالبان کے حامی مُلّاؤں کے حوالے کردی ہے اور اس طرح فوجی جارحیت کے لئے عوامی حمایت کا حاصل کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے-

دہشت گردی کے خلاف مضبوط محاذ بنانے میں ناکامی نے طالبان اور ان کی حامی قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں- لیکن ایف سی کے اہلکاروں کے سر کاٹنے کی بھیانک ویڈیو جس میں کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلتے ہوئے دکھایا گیا شاید ایک ایسا نقطہ ثابت ہو جہاں سے واپسی ناممکن ہو اور جس سے ہم تشدد پسندی کی ذہنیت اور سوچ کو شکست دے سکیں-

حکومت نے آٹھ مہینے سے زیادہ کا عرصہ طالبان کی منتیں کرتے اور نظریاتی بساط پر کھیلتے ہوئے پہلے ہی ضائع کردیا ہے، نتیجتاً دہشت گردوں کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی- ظاہر ہے کہ اس نقائص سے بھری حکمت عملی کی وجہ سے اور موتیں اور تباہیاں ہوئیں-

اب مزید نیم دلانہ اقدام کا نتیجہ ملک کی وحدت کیلئے تباہ کن نتائج کا سبب ہوگا- یہ بات بہت اہم ہے کہ شمالی وزیرستان کو تشدد پسندوں سے خالی کرایا جائے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ لڑائی ختم ہو گئی- دہشت گردی کے نیٹ ورک کو نہ صرف ختم کرنے بلکہ انتہا پسندی کے نظرئے کو شکست دینے کا کام ایک طویل جدوجہد کا طلب گار ہوگا-


انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: علی مظفر جعفری

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 8 جولائی 2025
کارٹون : 6 جولائی 2025