تین حکومتیں اتصالات سے 80 کروڑ ڈالرز وصول کرنے میں ناکام

07 اپريل 2014
وزارتِ خزانہ نے قومی اسمبلی کو ایک تحریری جواب میں بتایا کہ پی ٹی سی ایل کو املاک کی عدم منتقلی سے یہ رقم رُکی ہوئی ہے۔ —. فائل فوٹو
وزارتِ خزانہ نے قومی اسمبلی کو ایک تحریری جواب میں بتایا کہ پی ٹی سی ایل کو املاک کی عدم منتقلی سے یہ رقم رُکی ہوئی ہے۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: اپریل 2006سے موجودہ حکومت سمیت مسلسل تین حکومتیں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) کے خریدار سے 80 کروڑ ڈالرز کے بقایاجات کی رقم وصول کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے اُٹھائے گئے سوال کے تحریری جواب میں وزارتِ خزانہ نے قومی اسمبلی کو مطلع کیا کہ حکومت نے اتصالات انٹرنیشنل پاکستان کو غیرملکی ضرورت مبادلہ کی ادائیگی پر آمادہ کیا تھا، جس کی انتہائی ضرورت ہے۔

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق 43 املاک کی اتصالات کو منتقلی ابھی باقی ہے، یہ مسئلہ ادائیگی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، جو خریدار اور حکومت کے درمیان جنوری 2008ء کو حقیقی معاہدے کے مطابق طے پایا تھا۔

حکومت نے پی ٹی سی ایل کے چھبیس فیصد شیئرز متحدہ عرب امارات کے ٹیلی کام ادارے کو دو اعشاریہ انسٹھ ارب ڈالرز میں انتظامی حقوق کے ساتھ فروخت کیے تھے۔

اتصالات نے 1.799 ارب ڈالرز ادا کردیے تھے، اور 799.3 ملین ڈالرز روک لیے تھے، اس لیے کہ تمام شرائط پوری کرنے میں ناکام رہی تھی۔

بدقسمتی سے حکومت وفاقی بجٹ کے تخمینے میں یہ ظاہر کرچکی تھی کہ رقم وصول ہوگئی ہے۔

شیئر کی خریداری کے معاہدے کے تحت بقایا رقم کی ادائیگی تین ہزار دو سو اڑتالیس املاک کی جنوری 2008ء تک منتقلی سے مشروط تھی۔

اتصالات کو شکایت تھی کہ تمام املاک کو پی ٹی سی ایل کے نام منتقل نہیں کیا گیا تھا۔

نجکاری پر کابینہ کی کمیٹی نے شیئر کی خریداری کا معاہدہ گیارہ مارچ 2006ء کو اور کابینہ نے اسی سال گیارہ اپریل کو منظور کیا تھا۔ اس وقت شوکت عزیز وزیراعظم تھے۔

لیکن منتقلی کے اس عمل کے دوران یہ بات مشاہدے میں آئی کہ شیئرز کی خریداری کے معاہدے میں مذکور کچھ املاک یا تو قانونی چارہ جوئی سے دوچار ہیں، یا پھر نجی پارٹیوں کی ملکیت میں ہیں، لہٰذا انہیں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔

وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے اس معاملے میں بھرپور طریقے سے کوشش کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ نجکاری کمیشن نے شفاف طریقے سے تمام قابل اطلاق قوانین بشمول پی سی آرڈیننس 2000ء اور نجکاری (طریقے اور ضابطے) قوائد 2001ء پر عملدرآمد کیا تھا۔

اس کے علاوہ اسحاق ڈار نے کہا کہ دستاویزات کی رازداری اور خفیہ رکھنےکے ضابطے 2003ء حکومت یا اس کے کسی بھی ادارے کو نجکاری کے ایک سال مکمل ہونے کے بعد اس کی جانچ یا تحقیقات سے روکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس سودے کی کوئی انکوائری شروع نہیں کی گئی ہے۔

عارف علوی نے کہا کہ وہ شیئرز کی خریداری کے معاہدے کی شقوں کے بارے میں جان کر حیران رہ گئے کہ جو حکومت کو اس بات کا تعین کرنے سے روکتی ہیں کہ یہ منصفانہ معاہدہ تھا یا کہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اس معاہدے کے تحت موجودہ حکومت شیئرز کی خریداری کے معاہدے کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کرسکتی، لیکن ان سرکاری حکام کے بارے میں کیا کہا جائے گا، جنہوں نے بظاہر ایک غیرمنصفانہ معاہدے کے طے پانے میں مدد دی، جس کی وجہ سے ہم اپنی ہی رقم کا اب تک انتظار کررہے ہیں۔‘‘

ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ حکومت کو کم از کم ان حصوں کی نشاندہی کرنی چاہیٔے، جن پر پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے وقت دھیان نہیں دیا گیا تھا، اور اس کو مستقبل کے لین دین کے لیے سرکاری دستاویزات کا حصہ بنادینا چاہیٔے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ طویل عرصے سے اس قدر بڑی رقم کی عدم ادائیگی ایک ایسے ادارے کی فروخت کے خلاف جاتی ہے، جو اپنی فروخت کے وقت منافع بخش تھا، یہ قومی خزانے کو بہت بڑا نقصان تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’’اگر موجودہ حکومت اس کی انکوائری نہیں کرسکتی تو کم از کم اس کو ایک مکمل اسٹڈی کروانی چاہیٔے، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ درحقیقت پی ٹی سی ایل کی نجکاری میں کیا بدعنوانی ہوئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں