کنٹونمنٹ میں بلدیاتی انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر
اسلام آباد : اگر سپریم کورٹ اپنے راستے پر بڑھتی رہی تو ملک بھر میں 43 کنٹونمنٹ بورڈز کے رہائشی سولہ سال بعد 25 اپریل کو اپنے بلدیاتی نمائندگان کا انتخاب کریں گے۔
تاہم سپریم کورٹ کے حکم نے جوابات سے زیادہ سوالات اٹھادیئے ہیں مثال کے طور پر یہ بات سامنے آئی کہ انتخابات کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کی دفعہ 15-BB کے تحت غیرجماعتی بنیادوں پر ہوں گے جسے 1979 میں متعارف کرایا گیا تھا اور یہ سیاسی جماعتوں کو ان انتخابات میں اپنے امیدوار نامزد کرنے سے روکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان خورشید عالم نے رابطہ کرنے پر بتایا " سپریم کورٹ کنٹونمنٹ کے علاقوں میں انتخابات چاہتی ہے مگر حکومت نے کنٹونمنٹ ایکٹ میں ترامیم نہیں کیں جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر منعقد ہوں گے"۔
دوسرے الفاظ میں ملک میں دو نظام رائج ہوں گے پہلا کنٹونمنٹ بورڈز کے لیے جبکہ دوسرا باقی ملک کے، کیونکہ چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔
مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت گزشتہ ایک برس تک اس حوالے سے قانون سازی کو لٹکائے رکھا۔
پی ٹی آئی پنجاب کے نائب صدر اور سابق ناظم راجا طارق کیانی نے کہا" حکومت کو کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 میں ترامیم کرنا چاہئے تھی جسے گزشتہ سال قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، حکومت اس ترمیمی بل کو سپریم کورٹ کے دباﺅ کے تحت ایوان میں لائی تھی مگر اس کی منظوری عمل میں نہیں آسکی"۔
پیپلزپارٹٰ کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بتایا " نواز لیگ کی حکومت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ملتوی کرنے کی کوشش کررہی ہے خاص طور پر کنٹونمنٹ کے علاقوں میں"۔
کنٹونمنٹ کے علاقوں میں آخری بار انتخابات 1998 میں غیرجماعتی بنیادوں پر منعقد ہوئے تھے۔
میاں نواز شریف کو ہٹانے کے بعد پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا اور انہوں نے ملک بھر میں کنٹونمنٹ بورڈز کو معطل کردیا اور ان علاقوں کا انتظامی چھوٹے بورڈز کے حوالے کردیا جو متعلقہ اسٹیشن کمانڈر، ایک سویلین اورایک فوجی عہدیدار پر مشتمل تھے (جن کی نامزدگی اسٹیشن کمانڈر کرتا تھا)۔
یہ بورڈز شہری اداروں کے کاموں جیسے تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ ریونیو اور منصوبہ بندی وغیرہ کو مانیٹر کرتے تھے۔
اسٹیشن کمانڈر جو کہ حاضر سروس بریگیڈیر ہوتا ہے، کنٹونمنٹ کی بیوروکریسی کی قیادت کرتے اور انہیں کنٹونمنٹ بورڈ کا صدر قرار دیا جاتا اور ہر کام ان کی نگرانی میں ہوتا تھا۔
وہی کمرشل اور رہائشی عمارت کی تعمیراتی پلانز، ترقیاتی کام اور بجٹ کی منظوری دیتے۔
بعد ازاں جب پرویز مشرف نے 2001 میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا تو کنٹونمنٹ کے علاقے جمہوری تجربے کا حصہ نہیں تھے۔
راولپنڈی کنٹونمنٹ میں خدمات انجام دینے والے حافظ حسین احمد کے مطابق " سابق صدر پرویز مشرف نے لوکل گورنمنٹ سسٹم کا دائرہ کنٹونمنٹ تک نہیں بڑھایا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ منتخب سویلین نمائندے فوجی معاملات اور آبادیوں میں مداخلت کریں گے"۔
اب بھی یہ سوال تاحال موجود ہے کہ فوج سپریم کورٹ کے فیصلے پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرے گی، اب تک نچلے سطح پر جمہوریت کنٹونمنٹ کے علاقوں تک نہیں پہنچی، اگرچہ بلوچستان میں 2013 میں بلدیاتی انتخابات ہوئے مگر کنٹونمنٹ کے علاقے کوئٹہ، ژوب، لورالائی اور اوماڑہ اس عمل کا حصہ نہیں تھے۔
تاہم الیکشن کمیشن کے ترجمان خورشید عالم نے کہا کہ کمیشن کنٹونمنٹ کے علاقوں سمیت ملک بھر میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے لیے قانون سازی چاہتا ہے۔
مگر اس وقت صرف یہی واحد قانونی رکاوٹ نہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کے تحت ہوگا یا ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹس اس کی ذمہ داری سنبھالے گا۔
کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کے تحت کنٹونمنٹ بورڈز انتخابات کے انعقاد کے انچارج وہتے ہیں تاہم سپریم کورٹ کے دباﺅ کے تحت حکومت نے چار مارچ کو ایک آرڈنینس کا اجراءکیا جس میں کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کا اختیار ای سی پی کو دیا گیا۔
ایک وکیل ساجد الیاس بھٹی کے مطابق " کنٹونمنٹ ترمیمی آرڈنینس 2015 الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانے کا اختیار دیتا ہے"۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر ہی ہوں گے کیونکہ نئے آرڈنینس میں اس معاملے پر کچھ نہیں کیا گیا۔
علاوہ ازیں مقامی سطح پر انتخابات کے انعقاد کے بعد بھی کنٹونمنٹس میں فوج کی بالادستی ختم نہیں ہوگی۔
ایک بار جب انتخابات ہوجائیں گے تو ہر کنٹونمنٹ میں ایک بورڈ تشکیل پائے گا جو منتخب اور نامزد اراکین پر مشتمل ہوگا جس کے سربراہ اسٹیشن کمانڈر ہی ہوں گے۔
اسٹیشن کمانڈر ہی غیرمنتخب اراکین کو نامزد کریں گے اور وہ بورڈ کے فیصلوں کی حتمی منظوری بھی دیں گے۔
مثال کے طور پر اگر ایک کنٹونمنٹ میں چوبیس اراکین ہوں گے تو دس براہ راست جبکہ دو بلاواسطہ طریقے سے منتخب ہوں گے جبکہ باقی بارہ اراکین کو اسٹیشن کمانڈر نامزد کریں گے۔
سابق ناظم راجا طارق کیانی نے ڈان کو بتیا کہ حکومت کو 2001 کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو بحال کرکے اسے کنٹونمنٹ کے علاقوں تک توسیع دینی چاہئے تاکہ منتکب نمائندگان ہی تعلیم سے لیکر پولیس تک تمام مقامی معاملات کے ذمہ دار بن سکیں۔
انہوں نے مزید کہا " اختیارات کے بغیر منتخب نمائندگان شوپیس سے زیادہ کچھ نہیں ہوں گے"۔
ایک وکیل راجا مدثر زور دیتے ہیں کہ سویلین شہریوں کو اختیارات دینے کی ضرورت ہے اور سول و فوجی بیوروکریسی کی کنٹونمنٹ بورڈز میں یکساں نمائندگی کو ختم کیا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا " منتخب افراد کو فیصلے کرنے چاہئے، اس وقت اسٹیشن کمانڈر حتمی فیصلے کرتے ہیں"۔