اسلام آباد: حکومتی وزراء اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر ارکان نے رواں ہفتے کا آغاز پاناما لیکس کے حوالے سے اپنے مجوزہ جوڈیشل کمیشن پر اہم اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو راضی کرنے کے طریقہ کار کی کھوج نکالنے سے کیا۔

وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں معاملے کے حوالے سے متوازی تجویز پر بھی تفصیلی مشاورت کی گئی، جس میں پاناما پیپرز میں شامل تمام پاکستانیوں کے مالی معاملات پر غور کے لیے پارلیمانی کمیشن کے قیام کی تجویز دی گئی تھی۔

حکمراں جماعت کی جانب سے پارلیمانی کمیشن کی تجویز بظاہر پیپلز پارٹی کی اپوزیشن کیمپ سے وفاداری بدلنے کے لیے دی گئی، جبکہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں پارلیمانی کمیشن کے فوائد اور نقصانات پر غور کیا گیا۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں شرکاء نے مجوزہ جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔

اجلاس میں شرکت کرنے والے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ اجلاس کا اہم مقصد وہ طریقہ کار ڈھونڈنا تھا کہ عدالتی کمیشن کے قیام کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں، بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کو کیسے اعتماد میں لیا جائے۔

اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر اطلاعات پرویز رشید، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف، وزیرتجارت خرم دستگیر، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر قانون زاہد حامد، وزیر سیفران عبد القادر بلوچ، وزیر آئی ٹی انوشہ رحمان اور وزیر اعظم کے مشیر عرفان صدیقی شریک تھے۔

اجلاس کے شرکاء میں اس بات پر وسیع اتفاق پایا گیا کہ عدالتی کمیشن کے قیام کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو راضی کرنا مشکل ہوگا، لہٰذا تمام توانائیاں پی پی پی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو منانے میں صَرف کی جائیں۔

اجلاس میں ایک تجویز یہ بھی دی گئی کہ عدالتی کمیشن کے ساتھ ساتھ ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی جائے، جو پاناما پیپرز میں شامل تمام پاکستانیوں کے اکاؤنٹس کی تحقیقات کرے۔

پیپلز پارٹی پہلے ہی یہ مطالبہ کرچکی ہے کہ پاناما لیکس میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کا ٹاسک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جائے، جبکہ اس نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں بننے والے کمیشن کے حکومتی اعلان کو مسترد کردیا۔

اجلاس کے ایک اور شریک کار کا ڈان سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم مجوزہ عدالتی کمیشن پر تمام پارلیمانی جماعتوں کا اتفاق رائے قائم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، جس میں 2 سے 3 دن لگ سکتے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ عدالتی کمیشن کے حوالے سے حتمی فیصلہ وزیر اعظم نواز شریف کریں گے۔

حکومت کے قانونی مشیر کا عدالتی کمیشن کی سربراہی کے لیے جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کے نام کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہم اس حوالے سے دیگر جماعتوں کی تجاویز کا انتظار کر رہے ہیں، جبکہ کمیشن کے سربراہ کا انتخاب باہمی مشاورت سے کیا جائے گا۔

دوسری جانب وزیراعظم ہاؤس کے میڈیا سیل نے منگل کی رات کو نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان کیا ہے۔

وزیراعظم ہاؤس کے سینئر عہدیدار نے بھی ڈان کو بتایا کہ چونکہ نواز شریف وطن واپس آرہے ہیں، اس لیے پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن یا پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ وہ خود کریں گے۔

یہ خبر 19 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں