سب کو رلا دینے والی نہتّی لڑکی کی یاد میں

اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2016
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس ملک اور جمہوریت کی جڑوں کو اپنے خون سے سیراب کر گئیں۔ پھل کب میٹھا ملے گا یہ تو جمہوریت کا تسلسل قائم رکھنے والوں کی ذمہ داری ہے — فائل فوٹو
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس ملک اور جمہوریت کی جڑوں کو اپنے خون سے سیراب کر گئیں۔ پھل کب میٹھا ملے گا یہ تو جمہوریت کا تسلسل قائم رکھنے والوں کی ذمہ داری ہے — فائل فوٹو

اُن سے میرا پہلا تعارف "ذوالفقار علی بھٹو کی نڈر بیٹی" کے طور پر ہوا تھا۔ یادداشت کھنگالنے بیٹھی تو اپنے گرد لہجوں سے رویوں تک اور پھر بحث و مباحثوں کے موضوعات سے لے کر رائے سازی تک، مجھے ایک مکمل ارتقائی عمل دِکھائی دیا۔

مجھے وہ جملہ یاد ہے جو سماعتوں سے ٹکرا کر ایک چھوٹی سی بچی کے ذہن میں گرہ لگانے کے بجائے تجسس اور فکر کا باعث بن گیا: "عورت کیسے حکمرانی کر سکتی ہے؟ مذہب میں اس چیز کی گنجائش موجود نہیں ہے بھئی۔ مردوں کی بھیڑ میں انتخابی مہم چلانا اور بات ہے۔ لیکن کوئی غیرت مند مرد گوارا نہیں کرے گا کہ اس پر عورت مسلط ہو جائے۔ پہلی دفعہ باپ کے نام کا ووٹ لے گئی، اب دوبارہ ایسا نہیں ہو سکتا۔" ایسے ہی کچھ جملوں کا تبادلہ تھا جو بیٹھک میں بیٹھے کچھ مردوں کی حتمی رائے تھی۔

جب اس ملک میں ایک خاتون نے دوسری دفعہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا، تو ہمارے گھر میں دادی اور اماں ہی صرف مسکرا رہی تھیں۔ یہ وہ امید تھی جو ایک ماں اپنی بیٹی کے مضبوط قدم دیکھ کر مسکراہٹ میں پروتی ہے۔ جب دل میں کہیں یقین ہوتا ہے کہ "ہم نہ سہی کوئی اور بنتِ حوا سہی۔"

پڑھیے: پہلے خط سے آخری ملاقات تک بے نظیر

محترمہ بینظیر بھٹو کی قیدِ تنہائی، سیاسی جدو جہد کے ابتدائی ایام، جیل، نظربندی، نصرت بھٹو کو لہو لہان کر دینے والا شدید لاٹھی چارج، 1984 میں وطن واپسی پر فقیدالمثال استقبال، شادی، اور دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بننا، ان واقعات اور ان کی سیاسی تاریخ کو کتب سے پڑھتے، عینی شاہدین سے سنتے ہوئے ہمیشہ ایک کسک دل میں اٹھتی ہے کہ کاش یہ سب خود مشاہدہ کیا ہوتا۔ بینظیر بھٹو کی تینوں بچوں کی پیدائش سے قبل اور بعد میں بطور ایک ماں یادداشت پڑھیں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔

ان کی زندگی پر ایک نگاہ دوڑائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سہاروں کے بغیر سر اٹھا کر جینا کِسے کہتے ہیں اور غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتے رہنا کیا ہوتا ہے۔ بات چیت کا راستہ نکال کر مذاکرات کی راہ ہموار کر کے بدزبانی کے بغیر اپنا مؤقف کیسے منوایا جاتا ہے۔

وہ حکومت میں آنے سے پہلے اور پارلیمنٹ میں آنے کے بعد بھی اپنے ملک اور اسلام میں عورت کا چہرہ بڑے ہی حسین و نفیس انداز میں بین الاقوامی میڈیا، یونیورسٹی لیکچرز اور پریس میں پیش کرتی رہیں۔ میڈیا، صحافی اور صحافت کی اہمیت سے وہ پوری طرح واقف تھیں۔

اس ملک میں فائبر آپٹک کیبل لنکس ہوں یا موبائل فونز، ہمارے لیے یہ بینظیر بھٹو کا ہی تحفہ ہیں۔ بین الاقوامی سیاح کو فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات سے لے کر ملک میں سی این این کو عالی شان ہوٹلوں کے کمرے سے نکال کر عوام تک پہنچا کر عام پاکستانی کو باہر کی دنیا سے جوڑنے کی کوشش کا آغاز کیا گیا۔

کسی بھی ملک کی ترقی میں خواتین کا کردار بھی مساوی حیثیت کا حامل ہے۔ ہمارے میں ملک میں قدامت پسندانہ سوچ کی زد میں خواتین کے حقوق تلف ہو جاتے ہیں، مگر بینظیر نے صحیح معنوں میں خواتین کو بااختیار بنانے کا عملی مظاہرہ کیا۔ انہوں نے قیدی خواتین کے لیے بہتر قانونی معاونت کی سہولت کو یقینی بنایا، وزارت ترقی برائے خواتین کو متعارف کروایا اور کابینہ میں خواتین کی بڑی تعداد شامل کی گئی۔

پڑھیے: بے نظیر کی برسی، بلاول اور زرداری 3 سال بعد ایک ساتھ شریک

وومین ڈویلپمنٹ بینک اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کے علاوہ خاندانی منصوبہ بندی، چائلڈ کیئر، زچہ و بچہ کی صحت و غذائیت کے پروگراموں پر نگاہ دوڑاتے یہ خیال ضرور آتا ہے کہ عورت جب ملک کی سربراہ ہو تو وہ آبادی کے بڑے تناسب یعنی خواتین کے مسائل کے حل اور ان کو بااختیار بنانے کی خاطر کس قدر کوشاں رہتی ہے۔

ایک عرصہ اور یادوں کو فاسٹ فارورڈ کر کے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کی خبر تک آتی ہوں۔ میری عمر کے لوگ آج گرتی، سنبھلتی، جانے والی حکومت جیسی اصلاحات بڑی روانی سے استعمال کرتے ہیں لیکن اقتدار کی غلام گردشوں میں کیا کھیل رچائے جاتے رہے، ڈور کا سرا ہاتھوں میں لیے پتلیوں کا ناچ کِس ڈھولکی پر پیش کیا جاتا رہا، رات کی تاریکیوں میں ہونے والی ملاقاتوں سے لے کر دن کے اجالوں میں سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کی روایتوں نے ملک کی جڑیں کس طرح کھوکھلی کیں، یہ جاننے کی فرصت بہت کم لوگوں کو میسر ہوتی ہے۔

میثاقِ جمہوریت کی خبر نے سیاسی کارکن کو اُس گرداب سے نکال کر آمریت کے خلاف متحد کیا اور سڑکوں پر نکالا۔

18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو کو بہت دِنوں بعد دیکھ کر میں نے ایک بار پھر دادی کی آنکھوں میں نمی اور ماں کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ دیکھی تھی۔

کراچی میں 18 اکتوبر کو قیامتِ صغریٰ برپا کروائی گئی اور محترمہ بینظیر کو سیکیورٹی رسک کہا گیا۔ انہیں عام انتخابات میں بھرپور حصہ لینے سے روکنا مقصود تھا۔ وہ جو ڈرتے تھے ایک نہتی لڑکی سے، وہ جمہور کی طاقت اور ایک ذی فہم رہنما کی عوام میں گہری جڑوں سے ہمیشہ ڈرتے ہی رہے ہیں۔

پڑھیے: آخر قاتل کون ہے؟

بینظیر بھٹو اور ان کی سیاسی جماعت نے ہمیشہ عوام سے رشتہ استوار رکھا اور آمریت سے مقابلہ کرتے اس رابطے کو بحال کرنے میں اعلٰی قیادت ہمیشہ "لیڈ فرام دا فرنٹ" کا استعارہ بن کر ابھری ہے۔

یہ 27 دسمبر کی سہ پہر تھی اور ہم ملتان میں اپنی قریبی عزیز کی رسمِ حنا کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ نانا ابو اور دیگر بزرگ ہمیشہ کی طرح بڑے کمرے میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے، شادی بیاہ کے ہنگاموں سے لاتعلق بنے پاکستان کے دو سیاسی رہنماؤں کی واپسی انجوائے کر رہے تھے۔ ایک شور اٹھا اور کسی نے آ کر بتایا کہ لیاقت باغ سے واپسی پر قاتلانہ حملے میں بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا ہے۔

شادی کی تمام خوشیاں اور شادمانیاں اس خبر کے ساتھ ہی ختم ہو گئیں، اس روز چھوٹے ماموں کے قتل کی خبر کے بعد میں نے زندگی میں دوسری دفعہ اپنے نانا کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تھا۔ چند لمحوں میں شادی والا گھر مکمل طور پر سوگ میں بدل چکا تھا۔

وہ لوگ جو کبھی "عورت کی حکمرانی" پر سوال اٹھاتے تھے، آج کے دن پاکستان اور جمہوریت کو پہنچنے والے ناقابلِ تلافی نقصان پر دکھ اور رنج میں ڈوبے تھے۔ نواز شریف کو اس روز جس طرح ٹوٹا پھوٹا اسکرین پر دیکھا تھا، اتنا تو وہ ان وڈیو کلپس میں بھی پریشان دکھائی نہیں دیے تھے جب جنرل مشرف نے انہیں جیل میں ڈال رکھا تھا۔ میثاقِ جمہوریت نے پاکستانی عوام کے لیے تازہ ہوا کا جو روشندان کھولا تھا اس کا ایک چراغ بجھایا جا چکا تھا۔

پڑھیے: بینظیر بھٹو کے قتل کا راز

رسمِ حنا منسوخ کردی گئی تھی اور ٹی وی پر ملک بھر میں پھوٹے ہنگاموں، لوٹ مار اور جلاؤ گھراؤ میں کچھ قریبی عزیزوں کی دوکانوں کا حشر دیکھتے ہوئے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایک عظیم رہنما کے قتل پر غم و غصے کی یہ کیسی لہر ہے جو "بغیرمنصوبہ بندی" کے اس سرعت سے تمام جانب آگ لگا رہی تھی۔ اگلے روز صرف 25 لوگ جا کر سادگی سے نکاح پڑھوا کر بہو کو لے آئے تھے کہ ہمارے ہاں سوگ میں شادیانے نہیں بجائے جاتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس ملک اور جمہوریت کی جڑوں کو اپنے خون سے سیراب کر گئیں۔ میٹھا پھل کب ملے گا، یہ تو جمہوریت کا تسلسل قائم رکھنے والوں کی ذمہ داری ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں