پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر پر پاکستان کا حکمران طبقہ اس کا کریڈٹ لے کر اگلے انتخابات جیتنے کی تیاری میں ہے جبکہ اپوزیشن اقتصادی راہداری کی تعمیر میں چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کرنے کا شور مچا کر حکمران طبقے کو ڈس کریڈٹ کرنا چاہتی ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور طبقہ ہے جو اقتصادی راہداری پر شکوک و شبہات ابھار کر اس منصوبے کو اتنا متنازع کر دینا چاہتا ہے تاکہ یہ کالا باغ ڈیم کی طرح سرد خانے میں چلا جائے اور پایہءِ تکمیل کو نہ پہنچے۔

اقتصادی راہداری کا منصوبہ دراصل کیوں بنا؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ اور کیا اقتصادی راہداری منصوبہ چین کا پاکستان پر کوئی احسان ہے؟ اس کا جائزہ لیا جانا از بس ضروری ہے۔

چین کی معیشت ایک الگ طرح کے بحران کا شکار ہے، اور وہ ہے ضرورت سے زائد پیداوار، جس کے لیے اسے مارکیٹوں کی ضرورت ہے، ورنہ چین کی پیداواری صلاحیت ہی اسے ڈبونے کا سبب بن جائے گی۔

اضافی پیداواری صلاحیت کے بوجھ سے نکلنے کے لیے چین کو نئی منڈیوں کی تلاش کے ساتھ ساتھ چین کی ون بیلٹ ون روڈ پالیسی کے مقاصد میں خارجہ پالیسی اور چین کی فوجی طاقت کا بڑھاوا بھی شامل ہیں، جن سے چین کی حریف طاقتیں خائف بھی ہیں اور اس منصوبے پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ خطے میں اپنے مفادات کی نگہبانی بھی چاہتی ہیں جس کے لیے مقامی طاقتوں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

پڑھیے: ایران کے چاہ بہار منصوبے سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوگا؟

چین پاکستان اقتصادی راہداری جسے سی پیک کے مختصر نام سے یاد کیا جاتا ہے، چین کی ون بیلٹ ون روڈ پالیسی کا صرف ایک حصہ ہے اور چین کی تاریخ میں غیر ملکی اقتصادی ترقی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جو فروری 2014 میں 40 ارب ڈالر سے شروع کیا گیا۔

اس منصوبے میں غیرملکی سرمایہ کاروں نے بھی بہت دلچسپی دکھائی اور سنگا پور کے سرکاری ملکیتی ترقیاتی بورڈ نے بھی چین کے کنسٹرکشن بینک کے ساتھ اس منصوبے میں 22 ارب ڈالرکی شراکت داری کرلی ہے، جبکہ دنیا بھر سے ساورن ویلتھ فنڈز، بین الاقوامی پینشن فنڈز، انشورنس کمپنیز اور پرائیویٹ ایکویٹی فنڈز نے بھی اس منصوبے میں بڑے منافع کی توقع میں بھاری سرمایہ کاری شروع کر دی ہے۔ چین کے انفراسٹرکچر کے منصوبے اب دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں۔

چین کی کمپنیوں نے وسطی ایشیا میں سڑکوں، پلوں اور زیرِ زمین راستوں کا ایک جال تیار کر دیا ہے جس سے چین کی تجارت بڑھی ہے اور خطے میں چین کو معاشی برتری حاصل ہو گئی ہے۔

2013 میں قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے ساتھ چین کی تجارت کا حجم پچاس ارب ڈالر رہا جبکہ ان پانچوں ریاستوں میں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر روس تھا جس کی ان ریاستوں کے ساتھ مجموعی تجارت کا حجم اس سے پہلے تیس ارب ڈالر تھا۔

چین نے وسط ایشیا کے توانائی کے شعبے میں بھی بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ چین کی کمپنیاں قازقستان کی تیل کی پیداوار کی ایک تہائی کی مالک ہیں جبکہ ترکمانستان کی قدرتی گیس کی برآمدات کا نصف بھی چین کے کنٹرول میں ہے۔ چین نے ازبکستان کے ساتھ بھی گیس اور یورینیم کے شعبے میں پندرہ ارب ڈالر کے معاہدے کیے ہیں۔

ہائی اسپیڈ ریل کے شعبے میں مہارت کو بھی چین دنیا بھر میں بھرپور طریقے سے استعمال میں لا رہا ہے۔ چین میں ہائی اسپیڈ ریل کا نیٹ ورک 12,000 کلومیٹر سے بھی طویل ہے جو دنیا بھر میں سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ اب بیجنگ جنوب مشرقی ایشیا کو ہائی اسپیڈ ریل کے ذریعے چین سے منسلک کرنا چاہتا ہے۔

جنوبی امریکا میں بھی بیجنگ نے پاؤں پھیلا لیے ہیں اور صدر شی جن پنگ نے اگلے عشرے میں جنوبی امریکا میں 250 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، جس میں برازیل کے جنگلات سے دنیا کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلے اینڈز تک پھیلے ریل سسٹم کا منصوبہ بھی شامل ہے۔

چین کی سرکاری خبر ایجنسی نے گزشتہ سال یہ خبر دی تھی کہ چین نے افریقا میں 1000 سے زائد تعمیراتی منصوبے مکمل کر لیے ہیں جن میں 2230 کلومیٹر طویل ریل ٹریک اور 3350 کلومیٹر طویل ہائی ویز منصوبے شامل ہیں۔

اس سال چین نے اعلان کیا تھا کہ وہ افریقا کے 54 ممالک کو مربوط کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ کے کئی منصوبے جن میں شاہراہیں، پل اور ریل منصوبے شامل ہیں، تعمیر کرے گا۔

چین نے اپنے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر یورپ میں مزید سرمایہ کاری بھی شروع کر رکھی ہے اور یورپ کی سب سے بڑی بندرگاہ یونان کی Piraeus بندرگاہ بھی چائنا اوشن شپنگ کمپنی کی ملکیت ہے جہاں وہ مزید سرمایہ کاری کرے گا۔

پڑھیے: ’سی پیک بھی ایسٹ انڈیا کمپنی بن سکتا ہے‘

اس کے ساتھ چین بلغراد سے بڈاپسٹ تک بلٹ ٹرین پر تین ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ ریل، روڈز اور پائپ لائنز کا ایک اور نیٹ ورک وسطی چین کے شہر Xian سے بیلجیم تک بچھایا جا رہا ہے۔ چین اپنے صوبے ژی جیانگ کے شہر Yiwu سے میڈرڈ تک 8000 میل طویل کارگو ریل روٹ بنا رہا ہے۔ کیلیفورنیا میں ہائی اسپیڈ ریل کا مجوزہ منصوبہ بھی چین کو ملنے کا امکان ہے۔

ان سب منصوبوں کے ساتھ ساتھ چین بڑے مالیاتی ادارے قائم کر رہا ہے۔ ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک پورے ایشیا میں تعمیراتی منصوبوں کو فنڈز فراہم کرے گا۔ اس بینک کے 57 ملک رکن ہیں اور اس کے لیے چین نے ابتدائی طور پر 100 ارب ڈالر مہیا کیے ہیں۔

اس کے علاوہ ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف چائنا ہے جس نے 2015 میں 80 ارب ڈالر قرض جاری کیا۔ چین کے اس بینک کے سامنے ایشین ڈویلپمنٹ بینک اب بونا بن گیا ہے۔

دنیا بھر کی طرح چین پاکستان میں بھی اقتصادی راہداری تعمیر کر رہا ہے جس میں ریل، روڈز اور پائپ لائنز منصوبے شامل ہیں، اس اقتصادی راہداری منصوبے کا مرکز گوادر ہے۔ چین کے اس منصوبے کا مقصد مشرق وسطیٰ سے توانائی کی درآمد کے لیے اضافی سمندری راستہ بنانا ہے تاکہ وہ دیگر سمندری راستوں پر انحصار ختم کرنے کے ساتھ ساتھ مختصر زمینی راستے کا فائدہ اٹھائے۔

اس خطے میں پاک چین اقتصادی راہداری بھی اکیلا منصوبہ نہیں، بلکہ ایران بھی چین کے تعمیراتی منصوبوں سے استفادہ کر رہا ہے۔ ایران یہ توقع کر رہا ہے کہ چین کے ساتھ شراکت کے ذریعے وہ چین اور یورپ کے درمیان تجارت کا مرکز بن جائے گا۔

اس سال مشرقی چین سے پہلی مال گاڑی قازقستان اور ترکمانستان کے راستے 14 دن میں تہران پہنچی، جبکہ یہی سفر سمندر کے راستے 45 دن کا ہے۔ چین اور ایران کا تجارتی حجم 2003 میں صرف 4 ارب ڈالر تھا، جبکہ 2014 میں تجارتی حجم 52 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ ایران اگلے ایک عشرے میں اس تجارتی حجم کو 600 ارب ڈالر تک پہنچانے کی خواہش رکھتا ہے۔

دنیا میں بڑھتے چینی اثر و رسوخ کے اس نئے عنصر سے فطری طور پر کچھ طاقتوں کو خطرہ محسوس ہوا ہے، جیسے کہ روس، جس کا وسط ایشیا میں اثر و رسوخ دو صدیوں پر محیط ہے۔ چین نے قازقستان کے ساتھ تیل اور گیس کی پائپ لائنز بنائی ہیں، جن سے ترکمانستان کا روس پر انحصار کم ہوا ہے، یقینی طور پر روس کے لیے یہ تشویش کی بات ہے۔

پڑھیے: سیاسی جماعتیں سی پیک پر اختلافات ختم کریں، چین

اس کے علاوہ چین دنیا بھر میں اپنے منصوبوں میں مقامی لیبر کے بجائے اپنی لیبر کا استعمال کر رہا ہے جس سے مقامی سطح پر شکایات پیدا ہو رہی ہیں۔ چین کے منصوبوں کے ٹھیکے بھی چینی کمپنیوں کو ہی دیے جا رہے ہیں، اس پر بھی چند ایک سوالات اٹھتے ہیں۔

افریقا میں 2001 سے اب تک منصوبوں پر کام کے لیے کم از کم دس لاکھ چینی شہری کام کر رہے ہیں، لیکن زیادہ تر ملکوں میں چینی منصوبوں کی وجہ سےمعیشت میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے چینی لیبر پر سوالات اور تشویش زیادہ ظاہر نہیں کی جاتی۔

چینی لیبر کے حوالے سے پاکستان میں اب تک اپوزیشن جماعتوں نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تاہم صوبوں کے حصے کے حوالے سے شکایات پیدا ہو رہی ہیں، اس حوالے سے یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اقتصادی راہداری منصوبہ کوئی امداد نہیں، بلکہ خالصتاً کاروباری منصوبہ ہے جس سے چین خطے میں کاروباری، سیاسی، سفارتی اور اسٹرٹیجک مفادات پورے کرنا چاہتا ہے۔

اب یہ پاکستان اور اس کی سول و ملٹری قیادت پر منحصر ہے کہ وہ چین کے ساتھ تعاون میں پاکستان کے مفادات کا کس حد تک خیال رکھ پاتے ہیں۔ صوبوں کے شیئر کی بات اس وقت جچتی تھی جب یہ امدادی منصوبہ ہوتا۔ چین کو جہاں مناسب لگے گا وہ سڑک بنائے گا، اور جس حد تک کم خرچ کے ذریعے وہ پائپ لائنز اور تعمیراتی منصوبے مکمل کرے گا اس میں اس کا فائدہ ہوگا۔ مشرقی روٹ ہو یا مغربی، یہ فیصلہ بھی چین کرے گا، کیوں کہ اسے تجارت کے لیے کم سے کم طویل روٹ، کم خرچ اور زیادہ منافع چاہیے اور یہی تجارتی منصوبوں کی روح ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے سی پیک میں چھوٹے صوبوں کے شیئر پر لڑائی کو چین کا میڈیا بھی دیکھ رہا ہے اور اس پر تبصرے بھی کر رہا ہے۔ چین کے اخبار گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے کہ چین واحد ملک ہے جس کی دوستی کے بارے میں پاکستان کی تمام جماعتیں متفق ہیں۔ سی پیک پر کوئی لڑائی نہیں، بلکہ سی پیک کے لیے لڑائی ہے، یا دوسرے لفظوں میں یہ کیک کھانے پر لڑائی ہے کہ کس کا کتنا حصہ ہے۔

جانیے: 'پنجاب میں زیادہ سرمایہ کاری کا تاثر غلط'

سی پیک پر بڑا اعتراض یہ آ رہا ہے کہ اس منصوبے کے لیے فنڈز کہاں سے اور کس شرط پر آ رہے ہیں، اور پاکستان اس سرمائے کو کیسے واپس لوٹائے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس منصوبے پر فنڈنگ ایک قرض ہے اور اس کی واپسی کے لیے پاکستان کو سالانہ تین ارب 54 کروڑ ڈالر ادائیگی کرنی پڑے گی۔ ان سوالوں کے جواب بہرحال حکومت ہی دے سکتی ہے۔ سی پیک منصوبے کے حوالے سے مکمل رازداری ملک کے لیے مناسب نہیں، اگر کچھ پردہ داری ہے تو سوال ضرور اٹھیں گے۔

سی پیک پر اعتراضات کے بعد چین کے سفارتکار اس منصوبے کے دفاع کے لیے منظر پر آ چکے ہیں۔ اسلام آباد میں چین کے سفارتخانے کے چارج ڈی افیئرز محمد ژاؤ کھل کر سوشل میڈیا پر سی پیک کا دفاع کرتے اور سوالات کے جواب دیتے ہیں۔

ان چینی سفارتکار کو اس الزام نے شدید برانگیختہ کیا کہ سی پیک منصوبوں پر چین سے قیدیوں کو لا کر مزدوری کروائی جا رہی ہے۔ انہوں نے اس خیال کو احمقانہ قرار دیا اور جوابی الزام لگایا کہ یہ سوال اٹھانے والے کا اپنا کوئی پوشیدہ ایجنڈا ہے۔

چینی سفارتکار کی طرف سے کھل کر عوام کے سوالوں اور مخالفین کے اعتراضات کا جواب مستحسن ہے لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرکے سی پیک کی تکمیل کے ساتھ ملکی مفادات کا ہر ممکن تحفظ یقینی بنانا ہوگا اور عوام کے ذہنوں میں اٹھتے سوالات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ اسے نیا کالا باغ ڈیم بننے سے بھی بچانا ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Naveed Chaudhry Jan 09, 2017 11:37pm
Asalam O Alaikum, This could be good project but still Pakistan is financing it ( By borrowing money ). Why are we not worried about costs. Do we realy need this. Posible benefits to Pakistan? Why not to use local labour. Also there is tax effects. All of this should be discussed on respected forms.
محمد احمد Jan 10, 2017 01:56am
جناب ڈاکٹر آصف شاہد صاحب، آپ نے بلا شبہ ایک ایسے معاملے کی طرف توجہ دلائی ہے جو ہم پاکستانیوں کے لئےترقی کی راہیں کھول دے گا، اللہ کرے سی پیک کا منصوبہ جلد مکمل ہو تاکہ اس کے ثمرات حاصل کرسکیں، آمین
Muhammd Nasir Jan 10, 2017 03:54pm
Please ask me how this Project Help Pakistan ? Because Afghan transit trade already damage Pakistani Industry lot . this is also newer version of east India company.