اسلام آباد: سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیئے جانے کے بعد اس بحث کا آغاز ہوگیا کہ کیا سابق وزیراعظم تاحیات نااہل ہوگئے یا کچھ عرصے بعد وہ پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے دوبارہ سیاسی برادری کا حصہ بن سکتے ہیں۔

یہ سوال جب چند تجربہ کار وکلاء کے سامنے رکھا گیا تو سب اس پر الجھن کا شکار نظر آئے جبکہ کچھ قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو طویل عرصے سے ملتوی کیا جارہا ہے اور اس کے تعین کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر طارق محمود نے ڈان کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے کئی ایسے مقدمات موجود تھے جن میں اہم نکتہ اس بات کا تعین کرنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت ہونے والی نااہلی ہمیشہ برقرار رہتی ہے یا نہیں۔

ان مقدمات میں ثمینہ خاور حیات اور محمد حنیف کا کیس بھی شامل تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی نااہلی کا تکنیکی پہلو

سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی اسی نوعیت کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران حیرانگی کا اظہار کیا تھا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کی بنیاد پر کسی کو عمر بھر کے لیے انتخابات کا حصہ بننے سے نااہل کیسے کیا جاسکتا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ نااہل ہونے والے افراد بعد ازاں خود کو بہتر کرنے کے بعد انتخابات کے لیے اہل ہوسکتے ہیں۔

سینئر وکیل راحیل کامران شیخ نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 19 جون 2012 کو توہینِ عدالت کے جرم میں آرٹیکل 63 کے تحت یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا تھا، جس کی مدت 5 سال تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے آرٹیکل 62 کے تحت نااہلی کی مدت کی وضاحت نہیں کی گئی۔

تاہم طارق محمود کے مشاہدے کی تائید کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایسے کئی کیسز التواء کا شکار ہیں، جن میں اس بات کا تعین ہونا ہے کہ آرٹیکل 62 کا اطلاق صرف موجودہ الیکشنز پر ہوگا یا ہمیشہ کے لیے۔

مزید پڑھیں: ’وزیراعظم کی نااہلی کا سہرا تحریک انصاف کے سر‘

کامران شیخ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کی وجوہات پیش کرکے منتخب نمائندوں کی نااہلی کی حد کو اس قدر نیچے کردیا کہ مستقبل میں کئی افراد اس پراعتراض کرسکتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ پاناما پیپرز فیصلے کے بعد طاقت کا میزان عدلیہ کی حمایت میں جھک گیا ہے جبکہ پارلیمانی لیڈرز کی اہلیت خطرے میں پڑ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر فیصلے کا اطلاق تمام بورڈ پر ہوتا ہے تو خوف کا شکار پارلیمانی لیڈرز مل کر آرٹیکل 62 کی بنیاد پر اختیارات کو محدود کرنے کے حوالے سے آئینی ترمیم بھی کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین احسن بھون کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی نااہلی تاحیات ہے.

اپنے نکتہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے 2013 کے عبدالغفور لہری کیس کی مثال دی جس میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واضح کیا تھا کہ کچھ نااہلیوں کی نوعیت وقتی ہوتی ہے اور آرٹیکل 63 کے تحت نااہل ہونے والا شخص کچھ وقت بعد واپس اہل ہوسکتا ہے تاہم آرٹیکل 62 کے تحت نااہلی ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 کے تحت نااہل ہونے والے شخص کی نااہلی کی مدت متعین نہیں جس کے بعد وہ پارلیمانی انتخابات کا اہل ہوسکتا ہو۔

سابق اٹارنی جنرل طارق کھوکھر کا بھی کہنا تھا کہ چونکہ نواز شریف صادق اور امین نہ ہونے کی بنیاد پر نااہل ہوئے ہیں، لہذا یہ نااہلی تاحیات ہے۔


یہ خبر 29 جولائی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

الیاس انصاری Jul 29, 2017 02:33pm
یہ تا حیات نااہلی ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے انہیں تاحیات نااہل قرار دیا ہے