اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرز ملز کیس پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ قانونی طور پر اسحٰق ڈار کا بیان عدالت یا چیئرمین نیب کے سامنے ریکارڈ کیا جانا چاہیے تھا اور عدالت عظمیٰ نے نیب کو ہدایت کی کہ منی ٹریل کے شواہد جے آئی ٹی سے پہلے اور بعد کے شواہد پر مزید دلائل دیں۔

جسٹس مشیر عالم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم خان میاخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر نیب اپیل پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں ہی جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ کارروائی شروع ہونے سے پہلے نیب عدالت کو تاخیر کی وجوہات پرمطمئن کریں، جس پر نیب کے وکیل عمران الحق نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) رپورٹ کے نئے شواہد کی بات کی تھی اور ساتھ ہی نیب کے وکیل نے حدیبیہ پیپرز ملز کیس پر جے آئی ٹی سفارشات پڑھ کرسنائیں۔

عمران الحق کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے حدیبیہ ریفرنس کھولنے کی سفارش کی جیسا کہ منی ٹریل حدیبیہ پیپرز مل سے جڑی ہے اور اسی لیے نیب کی جانب سے اس کیس کو دوبارہ کھولنے کا کہا گیا۔

نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے حکم پر ایف آئی اے اور نیب میں شریف خاندان پر چلنے والے کیسز کا جائزہ لیا اور ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے ستمبر 1991 میں شریف خاندان نے منی لانڈرنگ کا آغاز کیا۔

مزید پڑھیں: حدیبیہ پیپرز ملزریفرنس: لائیو پروگرامز میں کیس زیر بحث لانے پر پابندی عائد

ڈپٹی پروسیکیوٹر نیب عمران الحق نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ابتدائی طور پر سعید احمد اور مختار حسین کے اکاونٹ کھولے گئے اور اسحٰق ڈار کا 164 کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ کیسے منی لانڈرنگ کی گئی جبکہ اسحٰق ڈار نے جعلی اکاؤنٹس کو اپنے بیان میں بھی تسلیم کیا۔

اس موقع پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے صرف اکثریتی فیصلہ پڑھنے کا کہا ہے، جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ پاناما فیصلے کے بعد نیب کے اعلی سطح کے اجلاس میں اپیل کا فیصلہ کیا گیا۔

جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا کہ کیا حدیبیہ کے حوالے سے پاناما فیصلے میں ہدایات تھیں، جس پر نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس کا ذکر پاناما فیصلے میں نہیں۔

جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ پاناما فیصلے کو حدیبیہ کے ساتھ کیسے جوڑیں گے اور جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی سفارشات پرکیا عدالت نے حدیبیہ پیپرز ملز کے بارے کوئی ہدایت کی، جس پر نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ لاہورہائی کورٹ نے فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر دیا۔

اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے اپنی رائے دی ہے مجرمانے عمل کیا ہے وہ بتا دیں کیونکہ ممکن ہے کہ یہ انکم ٹیکس کامعاملہ ہو جبکہ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ عدالت کو نیب آرڈینینس کا سیکشن 9 بتائیں۔

یہ بھی پڑھیں: حدیبیہ کیس میں کب کیا ہوا؟ مکمل جائزہ

علاوہ ازیں نیب کے وکیل نے کہا کہ عدالت اجازت دے تو اسحٰق ڈار کا بیان پڑھوں گا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اسحٰق ڈار کے بیان کو کس قانون کے تحت دوسرے کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کیا اسحٰق ڈار کے بیان کو کاؤنٹر چیک کیا گیا، جس پر نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار کے بیان کی تصدیق کی گئی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار کی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں اپنا کیس بتائیں، جس پر نیب کے وکیل نے اسحٰق ڈار کااعترافی بیان پڑھ کرسنایا۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اسحٰق ڈار کے اعترافی بیان کے علاوہ نیب کے پاس کیا شواہد ہیں اور اسحٰق ڈار نے یہ سارا عمل کس فائدے کے لیے کیا، جس پر نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار کو شریف فیملی کے لیے کام کرنے کے بدلے میں سیاسی فائدہ ہوا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ قانونی طور پر اسحٰق ڈار کا بیان عدالت یا چئیرمین نیب کے سامنے لیا جانا چاہیے تھا جس کے بعد عدالت نے ہدایت کی کہ منی ٹریل کے شواہد جے آئی ٹی سے پہلے اور بعد کے شواہد پر دلائل دیں اور بتایا جائے کہ 4 اکاونٹس تھے یا 36 ایشوز مشترک ہے۔

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں، اگر تاخیر کو عبور کر لیا تو ممکن ہے بات میرٹ پر آجائے، ’قانون سب کے لیے ایک ہے‘۔

مزید پڑھیں: حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس دوبارہ کھولنا نا انصافی ہے

جس کے بعد سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرز مل کیس پر نیب کی اپیل پر سماعت 13 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

گذشتہ روز سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کو براہِ راست ٹیلی ویژن پروگرامز میں زیر بحث لانے پر پابندی عائد کردی تھی۔

سماعت کے دوران عدالت نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس پر حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس سے متعلق لائیو ٹیلی ویژن پروگرامز میں بات چیت نہیں ہو سکتی تاہم اس کیس کے حوالے سے کورٹ رپورٹنگ ہوگی۔

سپریم کورٹ نے پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹر اتھارٹی (پیمرا) کو ہدایت جاری کی کہ وہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔

اس سے قبل نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں کیس کے التواء کی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں عدالت سے نئے پروسیکیوٹر کی تقرری تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ رواں برس 10 نومبر کو حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس سے متعلق نیب کی اپیل پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا 3 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔

تاہم 13 نومبر کو حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی سماعت سے قبل جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس کیس کی سماعت کے لیے تشکیل کیے گئے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کر لی تھی۔

بعدِ ازاں اس کیس کی سماعت کے لیے بینچ دوبارہ تشکیل کرنے کا معاملہ واپس چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس: جسٹس آصف سعید کی بینچ کا حصہ بننے سے معذرت

چیف جسٹس نے جسٹس مشیر عالم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم خان میاخیل پر مشتمل تین رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے 28 نومبر کو اس کیس کی سماعت کی۔

عدالت عظمیٰ نے نیب سے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 11 دسمبر تک کے لیے ملتوی کر دی تھی۔

بعدِ ازاں نیب کی جانب سے نئے پروسیکیوٹر کی تقرری تک سپریم کورٹ میں کیس کے التواء کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

حدیبیہ پیپر ملز کیس

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور اسحٰق ڈار کے خلاف نیب نے ایک ارب 20 کروڑ روپے بد عنوانی کے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس 17 برس قبل سَن 2000 میں دائر کیا تھا، تاہم 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے یہ ریفرنس خارج کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا تھا کہ نیب کے پاس ملزمان کے خلاف ثبوت کا فقدان ہے۔

پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کے دوران سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو حدیبیہ پیپر ملز کیس کا ریکارڈ جمع کرایا تھا، جس میں 2000 میں اسحٰق ڈار کی جانب سے دیا جانے والا اعترافی بیان بھی شامل تھا۔

اسحٰق ڈار نے اس بیان میں شریف خاندان کے کہنے پر ایک ارب 20 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کرنے اور جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے کا مبینہ اعتراف کیا تھا، تاہم بعد ازاں انہوں نے اپنے اس بیان کو واپس لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ بیان ان سے دباؤ میں لیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں