اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم (او آئی سی) نے مقبوضہ بیت المقدس کے حوالے سے امریکی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے فلسطین کے تنازع کو جلد حل کرنے کا مطالبہ کردیا۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کے بعد دنیا میں پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں ہوا۔

او آئی سی کے اجلاس میں ترک صدر رجب طیب اردوگان نے اپنے خطاب میں اسرائیل کو ’دہشت گرد‘ ریاست قرار دیا۔

ترک صدر نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنا عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور اخلاقیات کی اقدار کے منافی ہے جب کہ امریکی فیصلہ انتہا پسندوں کے مفاد میں ہے اور فیصلے کو صرف اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔

یہ پڑھیں: ’فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ ایک جیسا ہے‘

انہوں نے مز ید کہا کے فلسطین کے رقبے میں نمایاں کمی آرہی ہے، اسرائیل قابض اور دہشت گرد ریاست ہے جب کہ امریکی فیصلہ اسرائیل کے دہشت گردی اقدامات پر انہیں تحفہ دینے کے مترادف ہے۔

رجب طیب اردوگان نے کہا کہ ہم آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبے سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے اور مستقبل میں بھی رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’امریکا اس فیصلے کے بعد فلسطینی تنازع میں ثالث کی حیثیت کھو چکا ہے اس لیے اقوام متحدہ فلسطین سے متعلق تنازع میں اپنا کردار ادا کرے‘۔

ترک وزیرخارجہ کا کہنا تھا امریکا کا اقدام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں خاص طور پر یو این ایس سی آر 478 کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی بیت المقدس کے حوالے سے ممکنہ امریکی فیصلے کی مخالفت

اجلاس میں امریکا کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر غور کیا گیا۔

بعد ازاں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزراء خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں فلسطینی صدر محمود عباس، اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ دوئم، پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، آذربائیجان کے صدر الہام الیو، ایرانی صدر حسن روحانی اور بنگلہ دیش کے صدر عبدالحامد سمیت 22 اسلامی ممالک کے سربراہان اور 25 ممالک کے وزرائے شرکت کرکت کی۔

کانفرنس میں مصر، متحدہ عرب امارات، مراکش اور قازقستان کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے جب کہ سعودی عرب کی جانب سے اسلامک افئیر کے وزیر صالح بن عبدالعزیز الشیخ ریاض کی نمائندگی کررہے تھے۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی او آئی سی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کررہے جب کہ ان کے وفد میں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف بھی شامل ہیں۔

اجلاس کے بعد وزیراعظم اور وزیرخارجہ نے ترک وزیر خارجہ اور فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کیں۔

مزید پڑھیں: فلسطینی صدر نے امریکی نائب صدر سے ملاقات منسوخ کردی

واضح رہے کہ 57 رکنی تنظیم او آئی سی کی صدرات ترکی کررہا ہے اور گذشتہ روز ترک صدر طیب اردوگان اور روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق ٹرمپ کے اعلان کو خطے کے امن کے لیے خوفناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی اقدام سے مشرق وسطیٰ ایک نئی آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے مقبوضہ بیت المقدس یا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہا تھا کہ ان کے خیال میں یہ اقدام امریکا کے بہترین مفاد اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیامِ امن کے لیے ضروری تھا۔

ان کا کہنا تھا ’یہ ایک اتحادی کو تسلیم کرنے کے لیے علاوہ اور کچھ نہیں، میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کے احکامات دیتا ہوں‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد دنیا بھر میں بلخصوص مسلم ممالک میں شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اور ترکی میں امریکی سفارتحانے کے سامنے احتجاجی مظاہرین نے ٹرمپ کا پتلہ بھی جلا ڈالا تھا۔

یہ پڑھیں: ’بیت المقدس تمام مذاہب کا گھر ہے‘

واضح رہے کہ سعودی عرب نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیئے جانے پر شدید مذمت کرتے ہوئے فیصلے کو ‘ناجائز اور غیرذمہ دارانہ’ عمل قرار دے دیا تھا۔

گزشتہ دنوں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں امریکا پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اپنے اس فیصلے کو واپس لے تاہم اجلاس میں کوئی ٹھوس اقدامات کے حوالے سے وضاحت نہیں کی گئی تھی۔

اسرائیل کسی بھی قسم کی توقعات نہ رکھے، یورپی یونین

گزشتہ روز برسلز کے اجلاس میں اسرائیل کے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ‘یورپی یونین میں شامل ممالک بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنے اپنے سفارتخانے منتقل کریں’۔

یہ بھی پڑھیں: بیت المقدس کے بارے میں 5 چیزیں جاننا ضروری

جس پر اسرائیلی وزیراعظم کے بیان پر 28 یورپی ممالک کے خارجہ امور کی نگران فیڈیریکاموگیرینی نے دوٹوک جواب دیا تھا کہ ’اسرائیل ہم سے کسی بھی قسم کی توقعات نہ رکھے’۔

انہوں نے زور دیا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین کے لیے درمیان دو طرفہ امن کے لیے ضروری ہے کہ بیت المقدس کو دونوں ممالک (اسرائیل اور فلسطین) کا دارالحکومت رہنے دیا جائے جو بنیادی طور پر عرب اسرائیل جنگ 1967 کے بعد کیا گیا تھا۔

امریکا نے جہنم کا دروازہ کھول دیا

امریکی صدر کے مذکورہ فیصلے پر فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد، امریکا اب امن کی بحالی میں کردار ادا کرنے کا حق کھو چکا ہے۔

اپنی تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات ناقابل قبول ہیں جن کی وجہ سے خطے میں امن کو شدید نقصان پہنچے گا۔

حماس کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے نے جہنم کے دروازے کو کھول دیا ہے۔

اس بارے میں پڑھیں: امریکا بیت المقدس سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے، عرب لیگ

غزہ سے تعلق رکھنے والی فلسطینی اسلامی تحریک کے حکام نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'خطے کے حوالے سے امریکی مفاد میں ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ فیصلہ جہنم کے دروازے کھول دے گا'۔

امریکی فیصلہ عالمی قوانین کے منافی

اردن نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

اردن حکومت کے ترجمان محمد مومنی کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو افساس ناک قرار دیا اور تشدد کی فضاء سے بچنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے پر زور دیا۔

اس حوالے سے پڑھیں: ’اسرائیل بیت المقدس کے معاملے پر ہم سے کسی بھی قسم کی توقعات نہ رکھے‘

ان کا کہنا تھا کہ 'فرانس اور یورپ کو دو ریاستی معاہدے، جس میں اسرائیل اور فلسطین ساتھ ساتھ بین الاقوامی طور پر تسلیم کی گئی سرحد کے ساتھ امن کے ساتھ رہ رہے ہیں، کی حمایت کرتا ہے جس میں مقبوضہ بیت المقدس دونوں ریاستوں کا دارالخلافہ ہے‘۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے یکہ طرفہ فیصلے کے بعد سے اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات بڑی تیزی سے کشیدگی کی جانب بڑھ رہے تھے اور اتوار کو دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی جانب سے تلخ بیانات کا تبادلہ ہوا۔

اس سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے امریکا کی جانب سے اس متنازع فیصلے کے خلاف لڑنے کا اعلان کیا اور اسرائیل کو ایک 'دہشت گرد' ریاست قرار دیا جو بچوں کو قتل کررہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں